حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا (I)
Appearance
حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا
عشق اپنے مجرموں کو پا بہ جولاں لے چلا
آرزوئے دید جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دید جاناں لے چلا
بسملوں کو زخم زخموں کو مبارک لذتیں
سوئے مقتل پھر کوئی تیغ و نمک داں لے چلا
خون ناحق کی حیا بولی ذرا منہ ڈھانک لو
ناز جب ان کو سر خاک شہیداں لے چلا
کٹ گیا عاشق سر بازار سودا بک گیا
جان لیلیٰ عشق نے دل حسن خوباں لے چلا
خاک عاشق روکنے کو دور تک لپٹی گئی
جب سمند ناز کو وہ گرم جولاں لے چلا
میرے گھر تک پاؤں پڑ کر ان کو لایا تھا نیاز
ناز دامن کھینچتا سوئے رقیباں لے چلا
دل کو جاناں سے حسنؔ سمجھا بجھا کے لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |