حسن بے پروا کو خودبین و خود آرا کر دیا
Appearance
حسن بے پروا کو خودبین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا
بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بیتابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا
پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی
اضطراب شوق نے اک حشر برپا کر دیا
ہم رہے یاں تک تری خدمت میں سرگرم نیاز
تجھ کو آخر آشنائے ناز بے جا کر دیا
اب نہیں دل کو کسی صورت کسی پہلو قرار
اس نگاہ ناز نے کیا سحر ایسا کر دیا
عشق سے تیرے بڑھے کیا کیا دلوں کے مرتبے
مہر ذروں کو کیا قطروں کو دریا کر دیا
کیوں نہ ہو تیری محبت سے منور جان و دل
شمع جب روشن ہوئی گھر میں اجالا کر دیا
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا
سب غلط کہتے تھے لطف یار کو وجہ سکوں
درد دل اس نے تو حسرتؔ اور دونا کر دیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |