حسرت و امید کا ماتم رہا
Appearance
حسرت و امید کا ماتم رہا
یہ وہ دل ہے جو سدا پر غم رہا
اک نہ اک مجھ پر سدا عالم رہا
میں کبھی بے جاں کبھی بے دم رہا
میری قسمت کی کجی کا عکس ہے
یہ جو برہم گیسوئے پر خم رہا
وہ دل غمگیں ہے میرا غم پسند
غم کے جانے کا بھی جس کو غم رہا
دل کو ہر دم اک پریشانی رہی
زلف جاناں کی طرح برہم رہا
وہ نمک افشانیاں قاتل نے کیں
زخم دل شرمندہ مرہم رہا
بڑھتے بڑھتے ہو گیا ناسور دل
خون کا قطرہ جو دل میں جم رہا
تھا فقط اک غم مدار زندگی
غم رہا دل میں تو وہ بھی کم رہا
گریہ و زاری یہی ساقیؔ رہی
دل کی حسرت کا سدا ماتم رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |