Jump to content

حال انجام سے پیری میں خبردار ہوئے

From Wikisource
حال انجام سے پیری میں خبردار ہوئے (1933)
by منشی ٹھاکر پرساد طالب
324027حال انجام سے پیری میں خبردار ہوئے1933منشی ٹھاکر پرساد طالب

حال انجام سے پیری میں خبردار ہوئے
حیف صد حیف کہ اب خواب سے بیدار ہوئے

کس طرح خانہ نشینی سے نہ گھبرا جائیں
آدمی ہم نہ ہوئے نقطۂ پرکار ہوئے

خانۂ چشم میں رکھا نہ بصارت نے قدم
بند جس دن سے ترے روزن دیوار ہوئے

ہے مرے پیش نظر اب بھی تمہارا بچپن
مجھ سے بتلاؤ کہ تم کب سے طرحدار ہوئے

نفع کیا پہونچے کسی کو جو تونگر ہو بخیل
کیا عنادل کو ملا پھول جو زردار ہوئے

پست ہمت ہوئی موسیٰ کی حقیقت سن کر
بھول کر ہم نہ کبھی طالب دیدار ہوئے

موقع دید جب آیا تو نگہ خیرہ ہوئی
مردم دیدہ عجب وقت میں بیمار ہوئے

شیشہ سے بن کے پری بنت عنب جب نکلی
دیکھ کر جامے سے باہر وہیں مے خوار ہوئے

وصل میں تلخیٔ فرقت کی تلافی یہ ہوئی
لب شیرین صنم مجھ سے شکر بار ہوئے

منتشر فکر معیشت سے ہوئے ہوش و حواس
طائر عقل رسا پر ترے بے کار ہوئے

حشر میں عیش کے ساماں ہوئے دشمن طالبؔ
یار غار اپنے جو دنیا میں تھے اغیار ہوئے


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).