جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی
Appearance
جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی
کیا جانے کوئی کسی کی جی کی
شاہد رہیو تو اے شب ہجر
جھپکی نہیں آنکھ مصحفیؔ کی
رونے پہ مرے جو تم ہنسو ہو
یہ کون سی بات ہے ہنسی کی
جوں جوں کہ بناؤ پر وہ آیا
دونی ہوئی چاہ آرسی کی
گو اب وہ جواں نہیں پہ ہم سے
لت جائے ہے کوئی عاشقی کی
چاہے تو شفق کو پھونک دیوے
سرخی ترے رنگ آتشی کی
میں وادیٔ عشق میں جو آیا
مجنوں نے مری نہ ہم سری کی
کھاتے نہیں اب ترے نصیری
سوگند بھی مرتضیٰ علی کی
کیا ریختہ کم ہے مصحفیؔ کا
بو آتی ہے اس میں فارسی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |