جی جاؤں جو بند ناطقہ ہو
Appearance
جی جاؤں جو بند ناطقہ ہو
خاموش کہیں یہ بولتا ہو
جانباز جو تردد بھی ترا ہو
سو بار مرے پھر اٹھ کھڑا ہو
ذرے میں ہو نور مہر وش
تیرا جو کرم ہو کیا سے کیا ہو
کھل جائیں ہزاروں کوچہ زخم
تلوار چلے تو راستہ ہو
زلفوں پہ جو اس کے مر مٹا ہوں
تربت پہ درخت جال کا ہو
گھڑیوں کے ہیں پر غبار شیشے
مٹی کوئی دل نہ ہو گیا ہو
رنگین ہو قبائے تن لہو سے
جوگی ہوں لباس گیروا ہو
بخشے جو فلک غم زمانہ
غم خوار وہ ہوں کہ ناشتا ہو
ثانی ہے ترا محال اے بت
پیدا نہ خدا کا دوسرا ہو
تن خاک ہو ہوں وہ صاف طینت
میلا نہ کفن کا رونگٹا ہو
وہ بوسۂ لب مجھے کہ دشنام
درویش ہوں کچھ ملے بھلا ہو
یوں اے تپ غم جلا سراپا
سر تا قدم اک آبلہ ہو
اے دست خدا جو ہاتھ کی ہے
ہے شادؔ شکستہ پا نیا ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |