Jump to content

جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے

From Wikisource
جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے
by اصغر گونڈوی
298085جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہےاصغر گونڈوی

جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے
اے شعبدہ پرداز یہ کیا طرز نظر ہے

سینے میں یہاں دل ہے نہ پہلو میں جگر ہے
اب کون ہے جو تشنۂ پیکان نظر ہے

ہے تابش انوار سے عالم تہہ و بالا
جلوہ وہ ابھی تک تہہ دامان نظر ہے

کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار
نالوں میں رسائی ہے نہ آہوں میں اثر ہے

ذروں کو یہاں چین نہ اجرام فلک کو
یہ قافلہ بے تاب کہاں گرم سفر ہے

خاموش یہ حیرت کدۂ دہر ہے اصغرؔ
جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب طرز نظر ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.