جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا
Appearance
جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا
کہ مجھ کو دیکھ کے بسمل کو بھی سکون ہوا
غریب دل نے بہت آرزوئیں پیدا کیں
مگر نصیب کا لکھا کہ سب کا خون ہوا
وہ اپنے حسن سے واقف میں اپنی عقل سے سیر
انہوں نے ہوش سنبھالا مجھے جنون ہوا
امید چشم مروت کہاں رہی باقی
ذریعہ باتوں کا جب صرف ٹیلیفون ہوا
نگاہ گرم کرسمس میں بھی رہی ہم پر
ہمارے حق میں دسمبر بھی ماہ جون ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |