جہاں تک ہم ان کو بہلاتے رہے ہیں
Appearance
جہاں تک ہم ان کو بہلاتے رہے ہیں
وہ کچھ اور بھی یاد آتے رہے ہیں
انہیں حال دل ہم سناتے رہے ہیں
وہ خاموش زلفیں بناتے رہے ہیں
محبت کی تاریکی یاس میں بھی
چراغ ہوس جھلملاتے رہے ہیں
جفا کار کہتے رہے ہیں جنہیں ہم
انہیں کی طرف پھر بھی جاتے رہے ہیں
وہ سوتے رہے ہیں الگ ہم سے جب تک
مسلسل ہم آنسو بھاتے رہے ہیں
بگڑ کر جب آئے ہیں ان سے تو آخر
انہیں کو ہم الٹے مناتے رہے ہیں
وہ سنتے رہے مجھ سے افسانہ غم
مگر یہ بھی ہے مسکراتے رہے ہیں
نہ ہم ہیں نہ ہم تھے ہوس کار حسرت
وہ ناحق ہمیں آزماتے رہے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |