جہاں بات وحدت کی گہری رہے گی
Appearance
جہاں بات وحدت کی گہری رہے گی
وہاں فکر اپنی نہ تیری رہے گی
لجاجت امیروں سے یک دم اٹھا دے
قناعت سے اپنی فقیری رہے گی
نہ جینے کی خواہش نہ مرنے کا غم ہے
جو حالت ہے اپنی وہ ٹھہری رہے گی
مجلہ ہوا جب سے دل ہے ہمارا
نہ مرقد میں اپنے اندھیری رہے گی
گھمنڈ ہر طرح کرنا زیبا نہیں ہے
جوانی کسی کی نہ پیری رہے گی
خدائی کی قدرت خودی سے ہے مرکزؔ
مقلد ہیں جب تک اسیری رہے گی
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 97 years or less since publication. |