جگر تھامے ہوئے یاں طالب دیدار بیٹھے ہیں
Appearance
جگر تھامے ہوئے یاں طالب دیدار بیٹھے ہیں
مزے واں لوٹنے کو بزم میں اغیار بیٹھے ہیں
فقط اتنا کہا تھا تم ذرا صورت دکھا جاؤ
یہ سن کر آج مجھ سے وہ بہت بیزار بیٹھے ہیں
محبت ان سے کیا کی لے لیا کوہ الم سر پر
مجھے بدنام کرنے کو سر بازار بیٹھے ہیں
ذرا مقتل میں تم آ کر نکالو اپنے خنجر کو
یہاں ہم قتل ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں
چلا تو ہے عزیزؔ ان کی گلی میں شوق سے لیکن
قدم رکھنا سنبھل کر وہ بنے عیار بیٹھے ہیں
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |