جڑاؤ چوڑیوں کے ہاتھوں میں پھبن کیا خوب
Appearance
جڑاؤ چوڑیوں کے ہاتھوں میں پھبن کیا خوب
بھرے بھرے ترے بازو پہ نورتن کیا خوب
کھجوری چوٹی کے قربان واہ کیا کہنا
نثار پریوں کے مو بہ مو شکن کیا خوب
نئی جوانی کا جوش اور ابھار سینے کا
دوشالہ ڈھلکا ہوا سر سے بانکپن کیا خوب
عجب بہار ہے بیلوں کی اور بوٹوں کی
پری دوپٹا ترا غیرت چمن کیا خوب
ازار بند کے لچھے کا واہ رے عالم
گداز رانوں پہ پاجامے کی شکن کیا خوب
جو پہنا اچھا برا تو نے اترا بن بن کر
ہر ایک چیز میں جانی سجیلا پن کیا خوب
گلاب سے ترے گال اور آنکھیں نرگس سے
برنگ غنچۂ لالہ لب و دہن کیا خوب
نظر پھسلتے ہی واللہ میری آنکھوں میں خاک
کہ صاف صاف ہے آئینے سا بدن کیا خوب
خدا نے نور کے سانچے میں تجھ کو ڈھالا ہے
جو دیکھتا ہے وہ کہتا ہے یہ سخن کیا خوب
بیان حسن کرے تیرا بحرؔ کس منہ سے
ترا بناؤ ترے چھب تری پھبن کیا خوب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |