Jump to content

جَوابِ شِکوَہ (جواب فاسیق)

From Wikisource
جَوابِ شِکوَہ - جواب فاسیق
by انجم لکھنوی
348048جَوابِ شِکوَہ - جواب فاسیقانجم لکھنوی

دیدہ یاس ترا کیا مرا جلوہ دیکھے
 چشم ایماں میری رفعت کا تجلّا دیکھے
کن فیکن نہ کبھی وعدہ فردا دیکھے
کوئی غش کھائے کوئی طور کو جلتا دیکھے

تو مری شان کا اندازہ نہ کر پاے گا
 تو اگر جلوہ مرا دیکھے گا جل جاے گا

پر عیاں شکوہ بیانی سے ہے سیرت تیری
 دعوئ مد ح نہ کر وا ہے حقیقت تیری
 ارضِ کونین پہ اک داغ ہے خلقت تیری
 شرحِ اظہارِ تماشہ ہے محبّت تیری

کچھ بھی ظاہر ہو تو منصور نہیں ہو سکتا
ذرۀ نحس کبھی طور نہیں ہو سکتا

پتلہ خاک ہے حامئ تکبر کیسے
راہ کے ذروں کو کہہ دیگا کوئی در کیسے
 دور ماضی میں ہوئے اہلِ تفکر کیسے
وہ تھے بندے مرےپر تیرے تصور کیسے

کچھ ہیں تاریک دل کچھ حاصلِ تنویر بھی ہیں
گویا صحرا میں اسد بھی ہیں تو خنزیر بھی ہیں

میرا محبوب منادی ہے مرے کلمے کا
جنتی وہ ہے جو عادی ہے مرے کلمے کا
اس کی جنت جو جہادی ہے مرے کلمے کا
تیرا کیا تو تو فسادی ہے مرے کلمے کا


کنکروں نے تری مٹھی میں پڑھا ہے کلمہ
تو ہے بوجہل نہ سمجھا مرا کیا ہے کلمہ

کون سے فرقے کی مسجد کے بھلا بانی ہو
 تم عرب والے، ترک ہو ،یا کہ ایرانی ہو
یہ کہو اہلحدیث ہو ، کہ رضا خانی ہو
 دعوت الحق ہو ،یا تم خادمِ حقانی ہو

میرے قرآن میں ان فرقوں کے تو نام نہیں
 جو محمد کا نہیں اُس کا کوئی کام نہیں

کب کہا میں نے کہ تسبیح رہے وردِ زباں
سجدۂ شکر بھی لگتا ہے تجھے بار گراں
 مرتد دیں کی علامت ہے ترا وہم و گماں
 پھر بھی بروقت دعاؤں پہ ہے اپنی نازاں

با عمل تو نہیں تو واقف تقلید نہیں
جذبہ شر بھی ترا مائلِ تمہید نہیں

لامکاں جب ہوں ہر اک جا ہے مرے گھر کی طرح
 چاند سورج ہیں میرے نور کے محور کی طرح
 میں کوئی دشت و جبل ہوں نہ سمندر کی طرح
 مجھ کو سمجھے نہ کوئی دیو کے پتھر کی طرح

نور ہوں کب دل مومن سے جدا رہتا ہوں
اپنے بندوں کی میں شہہ رگ میں چھپا رہتا ہوں

حامئ نفس ہے تو کب کوئی عابد نکلا
 نشئہ مے میں جو کھو جائے وہ زاہد نکلا
 خود ترا نامہ اعمال شواہد نکلا
 حق پہ ٹھہرے نہ قدم ایسا مجاہد نکلا

تو مجاہد کی کسی خاک کفِ پا بھی نہیں
 تیرا اسلام نہیں تیرا پھریرا بھی نہیں

میرا پیغامِ عمل جسکو بھی مقصود ہوا
وہ بظاہر کبھی خالد کبھی محمود ہوا
جب ضرورت پڑی جس کی وہی مولود ہوا
 جو مخالف ہوا میرا وہی نمرود ہوا

میں اگر چاہوں تو سورج بھی نہیں ڈھل سکتا
آگ میں کیسے براہیم مرا جل سکتا

وہ تو باطل تھا جو کردار پلٹتے دیکھا
تو نے کب دین کی وسعت کو سمٹتے دیکھا
تجھکو ہمت دی تجھے حق سے نہ ہٹتے دیکھا
میں رضا مند تھا جو سر ترا کٹتے دیکھا

اس لئے میں نے بنایا تجھے سردار جناں
 میری مرضی نہ سمجھ پائیگی عقل انساں

جس کی تمثیل نہیں ایسی ہے قدرت میری
 سنگ ریزے بھی کیا کرتے ہیں مدحت میری
 سورہ اخلاص سے ظاہر ہے حقیقت میری
 کل جہانوں پہ مسلط ہے حکومت میری

دین میرا تری تبلیغ کا محتاج نہیں
 کون سی شئے ہے وہ جس پر کہ مرا راج نہیں

تو نے کعبے کو مرے خانہ اصنام کیا
 تین سو ساٹھ خداؤں نے بڑا نام کیا
 تیری کاوش نے تجھے مرید اسلام کیا
پر مرے شیر کی ہمت نے بڑا کام کیا

میرے محبوب کے کاندھوں پہ کھڑا تھا کوئی
عرش اعظم کے تصور سے بڑا تھا کوئی

فرش سے عرش تلک جو ہے مجھے پیارا ہے
جو مرے حکم کا منکر ہے وہ ناکارہ ہے
صرف ایک ضرب کلیمی کا یہ نظاّرہ ہے
غرق دریا ہوا فرعون ستم ہارا ہے

میری وحدت نے اشارے سے کہاں کام لیا
 میرے شیدائی نے ہر وقت مرا نام لیا

میرے گھر کو تو براہیم نے تعمیر کیا
تونے تو گر جاو بت خانے میں تکسیر کیا
کام جو تونے کیا لائقِ تکفیر کیا
سب کو ملاّ و برہمن نے گرہ گیر کیا

جو محمد نے بتایا وہ عبادت نہ رہی
 اپنے وعدے پر اٹل کیوں تری نیّت نہ رہی

ہے مرے نور سے تخلیقِ رسول عربی
کرلے قرآن میں تحقیقِ رسول عربی
آیتیں کرتی ہیں تصدیقِ رسولِ عربی
کی ہے نبیوں نے بھی توثیقِ رسول عربی

سُن اے بندے تری ہر بات حماقت کی ہے
 میرے محبوب نے بھی میری عبادت کی ہے

میں نے کونین بنائی تو بنائے ہیں اصول
مجھ سے اے آدم خا کی ترے شکوے ہیں فضول
یاد کر میرا کرم اُمتِ موسیٰ کو نہ بھول
میری مرضی سے ہوا تھا من وسلویٰ کا نزول

کون سمجھے گا کسے رزق میں کیا دیتا ہوں
 کوہ میں رکھ کے بھی کیڑے کو غذا دیتا ہوں

یاد کر عالم ارواح کا وعدہ اپنا
 بھول بیٹھا ہے فراموش مداوا اپنا
یعنی تلقینِ بخود دعوت سجدہ اپنا
میرے بندوں کو بناتا رہا بندہ اپنا

اہل ایماں کریں فرعون کو کیسے تسلیم
میرے منکر پہ مسلط ہے ابھی ضرب کلیم

شاکر از لی جو گزرے تیرے آبا وہ تھے
لائقِ سجدہ ہوں میں مائل سجدہ وہ تھے
بندگی کے لئے کوشاں دمِ لمحہ وہ تھے
ذہنِ ناقص نہ سمجھ پائیگا کیا کیا وہ تھے

آدم و حوا سے نسبت جہاں آرائی کی
 تو ہے مستحق سزا تو نے جو رسوائی کی

خود غرض مجھ کو جو سمجھے وہ منافق تو ہے
تجھ میں ایمان نہیں فاجر و فاسق تو ہے
پسرِ آدم نہیں ابلیس کا سابق تو ہے
میرے محبوب کا میرا کہاں عاشق تو ہے

کلمہ پڑھ کر بھی نہ تو صاحبِ ایمان ہوا
لعنتیں تجھ پہ تو ابتک نہ مسلمان ہوا

ارضِ خاکی یہ تجھے صحرا و کہسار دیئے
ندیاں کھیتیاں کھلیان و چمن زار دیئے
باغ تجھ کو دیئے سر سبز ہی اشجار دیئے
 جتنے اشجار دئیے وہ بھی تو پھل دار دیئے

تو جو حق تلفی کرے گا تو پشیماں ہوگا
 ہوں گے اعمال ترے اور مرا میزاں ہوگا

ذرے ذرے کی زباں پر ہے شہادت میری
 کون سمجھے گا کہاں تک ہے حکومت میری
خود فرشتے نہ سمجھ پائے مشیت میری
غیر ممکن کسی بت گر سے عبادت میری

نسل آدم پہ اگر میں نہ بھروسہ کرتا
تُو ہے کیا چیز میں آدم کو نہ پیدا کرتا

فکر ناقص ہے اگر ،فکر مطہّر بھی ہے
قلب تاریک اگر ہے تو منّور بھی ہے
آدم خاکی بھی ہے پیکر ہمسر بھی ہے
یعنی قطرہ جو ہے وسعت میں سمندر بھی ہے

میری رحمت سے تجھے بیر ہے منکر تو ہے
 ظاہری طور پہ دوزخ کا مسافر تُو ہے

خاص بندہ ہے مر ا پسر براہیم ہے وہ
کیا صداقت ہے تیری لائقِ تعظیم ہے وہ
میری رحمت کو ہر اک حال میں تسلیم ہے وہ
مالک باغ جناں مالک تسنیم ہے وہ

جو پسندیدہ مرے رستے پہ چل سکتا ہے
 وہ جہاں چاہے وہاں چشمہ ابل سکتا ہے

نام شامل جو میرا نعرۀ تکبیر میں ہے
زور لشکر میں ہے اور ڈھال میں شمشیر میں ہے
دین کیسے مٹے باطل اسی تدبیر میں ہے
قوم الجھی ہوئی علماء کی جو تقریر میں ہے

متحد ہو کے اگر یہ کرے باطل سے جہاد
پل میں ہو جائے نہ کیوں مسجد اقصیٰ آزاد

دل ہے سینے میں مگر جنبشِ ایمان نہیں
تیرا اطوار و چلن قارئ قرآن نہیں
 میں ہوں ممدوح ترا پر تو ثنا خوان نہیں
 تو کسی محفل عصمت میں بھی ذیشان نہیں

ہیں تِرے دامن پوشاک پر داغ عصیاں
کیسے محشر میں چھپائے گا سراغ عصیاں

تو وہ مجرم ہے جو احکا مِ ثنا بھول گیا
 میرے محبوب سے اور مجھ سے وفا بھول گیا
سن کے قرآنِ مقدس کی صدا بھول گیا
 یاد آرائش دنیا ہے قضا بھول گیا

تُو جدا مجھ سے ہے تُو میرا ملنسار نہیں
 متقی خلد میں جائیں گے گنہگار نہیں

میرے محبوب کی جس نے بھی اطاعت کی ہے
اُس نے پنج وقتہ نمازوں میں بھی شرکت کی ہے
سنتیں کی ہیں ادا فرض عبادت کی ہے
اک محمد ہیں جنہیں فکر بس امت کی ہے

امتّی ہو تو محمد کے پرستار رہو
قصِر جنت ہیں تمہارے تمہیں حقدار رہو

ختم شد


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.