جو ہوتا آہ تری آہ بے اثر میں اثر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو ہوتا آہ تری آہ بے اثر میں اثر
by عیش دہلوی
303260جو ہوتا آہ تری آہ بے اثر میں اثرعیش دہلوی

جو ہوتا آہ تری آہ بے اثر میں اثر
تو کچھ تو ہوتا دل شوخ فتنہ گر میں اثر

بس اک نگاہ میں معشوق چھین لیں ہیں دل
خدا نے ان کی دیا ہے عجب نظر میں اثر

نہ چھوڑی غم نے مرے اک جگر میں خون کی بوند
کہاں سے اشک کا ہو کہیے چشم تر میں اثر

ہو اس کے ساتھ یہ بے التفاتی گل کیوں
جو عندلیب کے ہو نالۂ سحر میں اثر

کسی کا قول ہے سچ سنگ کو کرے ہے موم
رکھا ہے خاص خدا نے یہ سیم و زر میں اثر

جو آہ نے فلک پیر کو ہلا ڈالا
تو آپ ہی کہیے کہ ہے گا یہ کس اثر میں اثر

جو دیکھ لے تو جہنم کی پھیرے بندھ جائے
ہے میری آہ کے وہ ایک اک شرر میں اثر

بگاڑیں چرخ سے ہم عیشؔ کس بھروسے پر
نہ آہ میں ہے نہ سوز دل و جگر میں اثر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse