جو کچھ کہ ہے دنیا میں وہ انساں کے لیے ہے
جو کچھ کہ ہے دنیا میں وہ انساں کے لیے ہے
آراستہ یہ گھر اسی مہماں کے لیے ہے
زلفیں تری کافر انہیں دل سے مرے کیا کام
دل کعبہ ہے اور کعبہ مسلماں کے لیے ہے
ہو قید تفکر سے کب آزاد سخن ور
منظور قفس مرغ خوش الحاں کے لیے ہے
اپنوں سے نہ مل اپنے ہیں سب اپنوں کے دشمن
ہر نے میں بھری آگ نیستاں کے لیے ہے
کچھ بخت سے میرے جو سوا ہے وہ سیاہی
باقی ہے تو میری شب ہجراں کے لیے ہے
دیوانہ ہوں میں بھی وہ تماشا کہ مرا ذکر
گویا سبق اطفال دبستاں کے لیے ہے
ہے بادہ کشوں کے لیے اک غیب سے تائید
زاہد جو دعا مانگتا باراں کے لیے ہے
چنگل میں ہے موذی کے دل اس چشم کے ہاتھوں
گھیرا یہ غضب پنجۂ مژگاں کے لیے ہے
میں کس کی نگاہوں کا ہوں وحشی کہ مری خاک
اک کحل بصر چشم غزالاں کے لیے ہے
دل بھی ہے بلا قابل مشق ستم و ناز
جو تیر ہے اس تودۂ طوفاں کے لیے ہے
نکلے کوئی کیا قید علائق سے کہ اے ذوقؔ
در ہی نہیں اس خانۂ زنداں کے لیے ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |