جو مریض عشق کے ہیں ان کو شفا ہے کہ نہیں
Appearance
جو مریض عشق کے ہیں ان کو شفا ہے کہ نہیں
اے طبیب ان کی بھی دنیا میں دوا ہے کہ نہیں
خوبرو جتنے ہیں عالم میں جفاکار ہیں سب
یاد کیا جانیں انہیں طور وفا ہے کہ نہیں
تنگ اتنا ہے زمانہ کہ چمن میں گل تک
صبح دم چاک گریباں ہی صبا ہے کہ نہیں
مری بے تابی کے احوال کو شب کے اس سے
نامہ بر تو نے زبانی بھی کہا ہے کہ نہیں
ظلم ہے یہ تو کہ دل لیجئے اور رہیے خفا
کہیں انصاف زمانے میں رہا ہے کہ نہیں
شیخ کہتے ہیں مجھے دیر نہ جا کعبہ چل
برہمن کہتے ہیں کیوں یاں بھی خدا ہے کہ نہیں
اپنے یاروں میں کوئی جا کے عدم سے نہ پھرا
کیوں محبؔ ان کی خبر لانی بجا ہے کہ نہیں
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |