جو مرغ قبلہ نما بن کے آشیاں سے چلے
Appearance
جو مرغ قبلہ نما بن کے آشیاں سے چلے
تڑپ تڑپ کے وہیں رہ گئے جہاں سے چلے
جگر شگاف ہو یا دل ہو چاک وحشت سے
جنوں میں جامۂ تن دیکھیے کہاں سے چلے
جو مر کے ریگ رواں بھی بنے ضعیفی میں
یہاں پہ رہ گئے ہم ناتواں وہاں سے چلے
ثبات جامۂ ہستی ہو خاک پیری میں
جو پیرہن ہو پرانا بہت کہاں سے چلے
وہاں سے آئے اکیلے تھے نامرادانہ
ہزار حسرت و ارماں لیے یہاں سے چلے
مرا ترا کی طرح شادؔ یہ بھی ایطا ہے
یہ قافیہ نہ نہیں سے چلے نہ ہاں سے چلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |