جو عدوئے باغ ہو برباد ہو
جو عدوئے باغ ہو برباد ہو
کوئی ہو گلچیں ہو یا صیاد ہو
مجھ سا عاشق مورد بیداد ہو
تم بڑے سفاک ہو جلاد ہو
کوچۂ جاناں سے مطلب ہے ہمیں
دیر ویراں ہو حرم برباد ہو
قید مذہب واقعی اک روگ ہے
آدمی کو چاہئے آزاد ہو
دور دور محتسب ہے ساقیا
ہائے کیوں کر مے کدہ آباد ہو
بک گئے ہیں آپ تو غیروں کے ہاتھ
بندہ پرور اب غلام آزاد ہو
یہ تمیز اللہ دے صیاد کو
باغ ویراں ہو قفس آباد ہو
سرو قدوں سے اگر پالا پڑے
خوب سیدھا باغ میں شمشاد ہو
آئنہ دل کا جو دکھلاؤں انہیں
جائے حیرت ہو عجب روداد ہو
تم وہ ہو مر جائیں تو بھی غم نہ ہو
عیش ہو عشرت ہو خوش ہو شاد ہو
گنبد گردوں پر اے دل آہ سے
کچھ نہ کچھ آفت پڑے افتاد ہو
موت ہنستی ہے خضر کے حال پر
تا کجا ہستئ بے بنیاد ہو
موسم گل ہو جنوں کا جوش ہو
جا بہ جا حداد ہو فصاد ہو
کان رکھ کر وہ مرے نالے سنے
زلف دود شعلۂ فریاد ہو
میں وہ بلبل ہوں جسے دونو ہیں ایک
باغ ہو یا خانۂ صیاد ہو
نذر سر کرتا ہوں میں اے شاہ حسن
حکم ہو جلاد کو ارشاد ہو
رنگ لایا ہے لڑکپن آپ کا
نوبہار گلشن ایجاد ہو
کیا قیامت ہے برا ہو موت کا
ہم نہ ہوں یہ عالم ایجاد ہو
بار الٰہا یوں اٹھیں محشر کو ہم
ہاتھ ہو اور دامن جلاد ہو
ظاہر و باطن میں اے دل فرق ہو
بت بغل میں ہو خدا کی یاد ہو
ان رقیبوں کو خدا غارت کرے
آپ ہوں یہ عاشق ناشاد ہو
آپ کو اپنی خوشی سے کام ہے
کوئی ناخوش ہو کوئی ناشاد ہو
آہ آندھی ہے مٹانے کے لئے
نقش ہستی چاہئے برباد ہو
جائے گلشن میں جو تو اے نونہال
کیا توارد مصرع شمشاد ہو
خوب ہے اس گل کو لائے راہ پر
اے صباؔ تم بھی بڑے استاد ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |