Jump to content

جو عدوئے باغ ہو برباد ہو

From Wikisource
جو عدوئے باغ ہو برباد ہو
by وزیر علی صبا لکھنؤی
303384جو عدوئے باغ ہو برباد ہووزیر علی صبا لکھنؤی

جو عدوئے باغ ہو برباد ہو
کوئی ہو گلچیں ہو یا صیاد ہو

مجھ سا عاشق مورد بیداد ہو
تم بڑے سفاک ہو جلاد ہو

کوچۂ جاناں سے مطلب ہے ہمیں
دیر ویراں ہو حرم برباد ہو

قید مذہب واقعی اک روگ ہے
آدمی کو چاہئے آزاد ہو

دور دور محتسب ہے ساقیا
ہائے کیوں کر مے کدہ آباد ہو

بک گئے ہیں آپ تو غیروں کے ہاتھ
بندہ پرور اب غلام آزاد ہو

یہ تمیز اللہ دے صیاد کو
باغ ویراں ہو قفس آباد ہو

سرو قدوں سے اگر پالا پڑے
خوب سیدھا باغ میں شمشاد ہو

آئنہ دل کا جو دکھلاؤں انہیں
جائے حیرت ہو عجب روداد ہو

تم وہ ہو مر جائیں تو بھی غم نہ ہو
عیش ہو عشرت ہو خوش ہو شاد ہو

گنبد گردوں پر اے دل آہ سے
کچھ نہ کچھ آفت پڑے افتاد ہو

موت ہنستی ہے خضر کے حال پر
تا کجا ہستئ بے بنیاد ہو

موسم گل ہو جنوں کا جوش ہو
جا بہ جا حداد ہو فصاد ہو

کان رکھ کر وہ مرے نالے سنے
زلف دود شعلۂ فریاد ہو

میں وہ بلبل ہوں جسے دونو ہیں ایک
باغ ہو یا خانۂ صیاد ہو

نذر سر کرتا ہوں میں اے شاہ حسن
حکم ہو جلاد کو ارشاد ہو

رنگ لایا ہے لڑکپن آپ کا
نوبہار گلشن ایجاد ہو

کیا قیامت ہے برا ہو موت کا
ہم نہ ہوں یہ عالم ایجاد ہو

بار الٰہا یوں اٹھیں محشر کو ہم
ہاتھ ہو اور دامن جلاد ہو

ظاہر و باطن میں اے دل فرق ہو
بت بغل میں ہو خدا کی یاد ہو

ان رقیبوں کو خدا غارت کرے
آپ ہوں یہ عاشق ناشاد ہو

آپ کو اپنی خوشی سے کام ہے
کوئی ناخوش ہو کوئی ناشاد ہو

آہ آندھی ہے مٹانے کے لئے
نقش ہستی چاہئے برباد ہو

جائے گلشن میں جو تو اے نونہال
کیا توارد مصرع‌ شمشاد ہو

خوب ہے اس گل کو لائے راہ پر
اے صباؔ تم بھی بڑے استاد ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.