جوش جنوں میں نکلے ہیں جب اپنے گھر سے ہم
جوش جنوں میں نکلے ہیں جب اپنے گھر سے ہم
مل مل کے خوب روئے ہیں دیوار و در سے ہم
تقدیر کا لکھا نہ مٹے گا کسی طرح
رگڑیں ہزار سر کو ترے سنگ در سے ہم
اچھی کہی کہ وصل میں ہم سے نہ بولئے
باتیں کریں گے آج بھی دیوار و در سے ہم
الفت رقیب کی نہ چھپے گی کسی طرح
اے جان تاڑ لیں گے تمہاری نظر سے ہم
چلنے کو چلتے ہیں مگر اے بانیٔ فساد
زندہ نہ پھر کے آئیں گے دشمن کے گھر سے ہم
پھوٹے ہوئے نصیب کی یہ بھی ہیں گردشیں
سر پھوڑتے جو پھرتے ہیں دیوار و در سے ہم
دن ہو گیا تمام نہ مطلب ہوا تمام
لکھتے ہیں نامہ یار کو بیٹھے سحر سے ہم
دیکھو جو آنکھ اٹھا کے تو جھنجھلا کے کہتے ہیں
تنگ آئے بہت ہی ہیں بڑوں کی نظر سے ہم
یہ رشک ہے کہ یار سے باتیں کرے گا یہ
لڑتے ہیں بات بات پہ پیغامبر سے ہم
دیکھیں گے کتنی اپنی مقدر میں ہے کجی
اک دن ملائیں گے تری ترچھی نظر سے ہم
شاید ترے حضور میں پہنچا دے خط شوق
پیدا کریں گے ربط ترے نامہ بر سے ہم
دکھلائیں گے کبھی اثر آہ آتشیں
سمجھیں گے ایک دن فلک فتنہ گر سے ہم
بہلا رہے ہیں دل شب تنہائیٔ فراق
پہروں سے باتیں کرتے ہیں دیوار و در سے ہم
وحشت یہ چاہتی ہے کہ صحرا کی سیر ہو
دل چاہتا ہے مر کے اٹھیں اس کے در سے ہم
شبنمؔ کی کچھ خبر نہیں کس حال میں ہے اب
پوچھیں گے ایک روز نسیم سحر سے ہم
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |