Jump to content

جمنا

From Wikisource
323738جمناسرور جہاں آبادی

دھیمی دھیمی بہنے والی ایک نہر دل نشیں
آب جو چھوٹی سی اک نازک خرام و نازنیں
تشنگیٔ شوق گنگا میں بجھانے کے لیے
جا رہی ہے اپنی ہستی کو مٹانے کے لیے
یہ وہ جمنا ہے کہ دل کش جس کا ہے انداز حسن
دیکھتے ہیں آہ عاشق جس کا خواب ناز حسن
یہ وہ جمنا ہے کہ گاتی ہیں سخنور جس کے گیت
مطربان خوش گلو کی ہیں زباں پر جس کے گیت

یہ وہ جمنا ہے جہاں لے لے کے جلوت کے مزے
لوٹے ہیں عشاق نے برسوں محبت کے مزے
یہ وہ جمنا ہے کہ رادھا سی حسیں نے مدتوں
برج کی اک پاک دامن نازنیں نے مدتوں
بنسی والے کی جدائی میں اڑا کر سر پہ خاک
اپنے اشکوں سے کیا ہے دامن ساحل کو پاک
یہ وہ جمنا ہے جہاں اک بانوے پردہ نشیں
آگرہ میں محو آسائش ہے جو زیر زمیں
رخ سے آہستہ الٹ کر چادر آب رواں
دیکھتی تھی مسکرا کر منظر آب رواں

آہ اے نہر لطافت آہ اے بحر جمال
دل میں ہے پہلو نشیں اب تک ترا نقش خیال
گرچہ تجھ میں اب نہیں وہ جلوۂ شان کہن
وہ حسیں تو ہے کہ اے شمع شبستان کہن
حسن رفتہ میں ہے تیرے اب بھی اک دل کش ادا
تیرے کملائے ہوئے پھولوں میں ہے بوئے وفا

تو ہے دریائے مقدس تو کہ ہے عصیاں سے پاک
تیرا دامن ہے ابھی آلائش انساں سے پاک
تیری شوکت کے ہیں شاہد اے وفادار کہن
تیرے برجوں اور ترے قلعوں کے آثار کہن
تیرے ساحل سے ٹپکتی اب بھی ہے شان بلند
آسماں فرسا ہیں اب بھی تیرے ایوان بلند
تیرے فرسودہ نشاں ہیں نقش ناز حسن و عشق
تیری موجوں میں نہاں ہے آہ راز حسن و عشق

آہ او رنگیں ادا او دلی والی نازنیں
او دو عالم کے حسینوں سے نرالی نازنیں
یاد ایامے کہ دل کش تھے ترے نقش و نگار
دن مرادوں کے تھے اور جوش جوانی کا ابھار
چڑھ کے جب مینار پر اک لعبت ناز آفریں
دیکھتی تھی تیری موجوں کی ادائے دل نشیں
وہ کف سیلاب وہ شور تلاطم ہائے ہائے
تیری موجوں کا وہ انداز تبسم ہائے ہائے

دھیمی دھیمی وہ تری رفتار بل کھائی ہوئی
وہ نظر جھینپتی ہوئی چتون وہ شرمائی ہوئی
وہ سریلی نغمۂ جوش تلاطم کی صدا
آہ وو دل کش ترے ساز ترنم کی صدا
برج کی او پاک دامن او مقدس نازنیں
نقش ہے دل پر تری اک اک ادائے دل نشیں

اب کہاں جمنا تری موجوں کی مستانہ وہ چال
اب کہاں پانی کے جھرنے اور وہ لطف برشگال
اب کہاں چھوٹا سا وہ رادھا کا کنج خوش گوار
اب کہاں وہ آہ متھرا تیرے پھولوں کی بہار
اب کہاں وہ بنسی والے کی ادائے جاں نواز
اب کہاں وہ آہ مرلی کی صدائے جاں نواز
اب کہاں وہ خلوت راز و نیاز حسن و عشق
بے صدا زیر زمیں ہیں آہ ساز حسن و عشق
او تلون کیش او کافر ادا اور دوں شعار
تو نے بدلے رنگ لاکھوں آہ وضع روزگار
خاک اٹھ کر آہ سر پر دامن ساحل اڑا
ٹکڑے ٹکڑے کر جگر کو پارہ ہائے دل اڑا
سوزش غم سے پگھل جا آہ اے ریگ رواں
ذرے ذرے میں تیرے تصویر عبرت ہے نہاں
اب کہاں وہ کنج دل کش اب کہاں رادھا کا عیش
ہے برنگ خندۂ گل بے بقا دنیا کا عیش

اے خوشا قسمت تری جمنا خوشا تیرے نصیب
واہ وا تیرے مقدر واہ وا تیرے نصیب
تو نے دیکھی ہے بہت دن مرلی والے کی ادا
دونوں عالم کے حسینوں سے نرالے کی ادا
اور سنی بنسی کی ہے برسوں صدائے دل نواز
داستان درد دل افسانۂ سوز و گداز
محشرستان الم کمبخت ہے کر دل کو چاک
چیر پہلو کو کہ نکلیں نالہ ہائے درد ناک

تا کجا یہ سر گذشت داستان درد و غم
چھیڑ اے جمنا کوئی تازہ بیان درد و غم
ہو نہ لیکن آہ تیرا شور ماتم دل خراش
تیرے نالوں کی صدا یعنی ہو کم کم دل خراش
اے لب ساحل سنا سیتوں کی عصمت کا بیاں
پردۂ افسانہ میں سوز محبت کا بیاں
تیرے پہلو میں ہے یہ کس حور وش کی یادگار
جس سے راتوں کو اٹھا کرتے ہیں آہوں کے شرار

آہ فرسودہ نشان عصمت جاں باز تو
کس پری پیکر کا ہے نقش وفائے ناز تو
ہے تری تعمیر میں مضمر وہی شان وفا
تیری ہر خشت کہن ہے جوہر کان وفا
غل نہ کر آہستہ آہستہ ہو اے جمنا رواں
تاج عصمت کا یہاں ہر اک در یکتا نہاں

اے زہے شوکت تری جمنا زہے اعزاز و شاں
تجھ پہ لہرایا کیا اسلام کا صدیوں نشاں
ہائے وہ ترکوں کے دستے اور سنگینوں کی شان
ترچھے بانکے وہ جواں وہ چار آئینوں کی شان

بے صدا زیر زمیں ہے بزم شاہان غیور
آہ جمنا تجھ میں لیکن ہے وہی شان غرور
آہ او شکوہ طراز دست بیداد اجل
رو نہ خون آرزو او محو فریاد اجل
آہ اس دار فنا میں ہے بقا کس کے لیے
چھوڑنے والا ہے شاہین قضا کس کے لیے

آہ اس خواب شبانہ کا ہے مجھ کو انتظار
اس سرور عاشقانہ کا ہے مجھ کو انتظار
تیری اک اک موج تھی جب آہ طوفاں کوش شوق
حلقۂ گرداب تھا جب ہالۂ آغوش شوق
جب کسی کے گیسوئے پر خم کی سودائی تھی تو
اور لب ساحل پہ روضہ کی تماشائی تھی تو
آہ جمنا تجھ کو دور پاستانی کی قسم
شوکت‌ دیرینۂ صاحب قرانی کی قسم
کیا نہ ہوں گے تجھ کو وہ دل کش مناظر پھر نصیب
عظمت اسلام کے اگلے مظاہر پھر نصیب
ہو کے مضطر آہ جوش اضطراب دل سے کیا
یوں ہی ٹکرایا کرے گی سر کو تو ساحل سے کیا

کون یہ پردہ نشیں ہے تیرے دامن میں نہاں
کس کا چہرہ ہے نقاب زلف پر فن میں نہاں
تیری موجوں میں ہے یہ کس کی صدائے دل فریب
گا رہی ہے کون یہ غارت گر صبر و شکیب
خانۂ دل میں ہے تیرے کون محو رقص ناز
آ رہی ہے کس کی چھاگل کی صدائے جاں نواز
وہ سمن اندام ہے یہ شاہد پردہ نشیں
جس کے پھولوں میں ہے اب تک بوئے فردوس بریں
حوریں آ کر خلد سے طوف مزار پاک کو
جھاڑتی پلکوں سے ہیں گرد و خس و خاشاک کو
آہ اے نقش و نگار شوکت عہد کہن
آہ اے آئینہ دار شوکت عہد کہن
ہم نے نانا تجھ میں اب وہ شان برنائی نہیں
وہ غرور حسن وہ تمکیں وہ رعنائی نہیں

ہم نے مانا تیرے چہرے کی ضیا جاتی رہی
تیری موجوں کی وہ مستانہ ادا جاتی رہی
منہ پہ گمنامی کا آنچل لے نہ اے پردہ نشیں
یوں ہی سرگرم خرام ناز رہ اے نازنیں
سر کو ٹکرایا کرے ساحل سے سیل روزگار
تیری شہرت کے نشاں صدیوں رہیں گے یادگار


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.