جل گیا خاک ہوا کب کا وہ پروانۂ دل
جل گیا خاک ہوا کب کا وہ پروانۂ دل
ختم ہوتا نہیں اب تک مگر افسانۂ دل
حشر کے دن پہ اٹھا رکھ کہ بڑا سودا ہے
عالم حسن سے ممکن نہیں بیعانۂ دل
آپ کی اک نگہ ناز اسے چھلکا دیتی
قابل شربت دیدار تھا پیمانۂ دل
ہم جبھی سمجھے تھے انجام کہ جب فطرت نے
خاک اور خون سے تیار کیا خانۂ دل
جلنے والے سے الگ ہو گئے ہم مشرب جاں
دے کے آگ اٹھ گئی وہ صحبت رندانۂ دل
تشنۂ جام محبت سے ہمیں واقف ہیں
قدر کیا ان کو جو توڑا کئے پیمانۂ دل
دوہری زنجیروں میں جکڑا ہے مقدر نے مجھے
اس کا دیوانہ ہے دل اور میں دیوانۂ دل
ضبط کرتا ہوں مگر ڈر ہے کہ شام غم میں
کہیں تنگ آ کے نہ کھل جائے سلح خانۂ دل
اب تو قطرہ نہیں ہاں وہ بھی کبھی دن تھے کہ ہم
مست ہو جاتے تھے خود دیکھ کے میخانۂ دل
جائے امید و تمنا کا پتا ملتا ہے
اب بھی دل کش ہے مرے واسطے ویرانۂ دل
ہے تو مٹی کا مگر قدرت خالق بھی ہے
حسن والے نہ بنا لیں کوئی پیمانۂ دل
دیکھ کر تفرقۂ مہر و جفا ہم سمجھے
ایک ہی وضع کا بنتا نہیں کاشانۂ دل
کائنات دو جہاں پاس ہے پھر تنگ نہیں
اور بھی کچھ ہو تو خالی ہے ابھی خانۂ دل
رخ رنگین حسیں ایک چمن ہے لیکن
روندنے کے لئے ہو سبزۂ بیگانۂ دل
حسن ہے خود ہیں زمانہ ہے وہ کیوں گھبرائیں
اور یہاں کیا ہے مگر ہاں وہی ویرانۂ دل
مٹ کے تصویر خرابات ہے اب تو ورنہ
کعبہ کہتے تھے سب ایسا تھا صنم خانۂ دل
کہئے قصہ کوئی ارباب وفا کا ثاقبؔ
چھوڑیئے ذکر جفا کا کہ ہے بیگانۂ دل
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |