جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے
Appearance
جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے
کیا جانے یہ کس کا مجھ کو غم ہے
جاوے تو کنشت دل میں ہو کر
تو کعبے کی راہ دو قدم ہے
دیکھے ہے وہ دھکدھکی میں جب سے
تب سے مرا دھکدھکے میں دم ہے
تصویر تو اس کی زلف کی دیکھ
نقاش یہ چین کا قلم ہے
گر دیدۂ غور سے تو دیکھے
ہستی جسے کہتے ہیں عدم ہے
اتنے جو ہوئے ہیں ہم بد احوال
یہ حضرت عشق کا کرم ہے
ہر چند اس کی ہے ہر ادا شوخ
منظور اپنا جو اک صنم ہے
پر دانتوں تلے زباں دبانا
بیداد ہے قہر ہے ستم ہے
سمجھو نہ فقیر مصحفیؔ کو
یہ وقت کا اپنے محتشم ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |