جفا کی اس سے شکایت ذرا نہیں آتی
Appearance
جفا کی اس سے شکایت ذرا نہیں آتی
وہ یاد ہی ہمیں شکر خدا نہیں آتی
نکل کے تا بہ لب آہ رسا نہیں آتی
کراہتا ہے جو اب دل صدا نہیں آتی
ہماری خاک کی مٹی ہے کیا خراب اے چرخ
کبھی ادھر کو ادھر کی ہوا نہیں آتی
شب وصال کہاں خواب ناز کا موقع
تمہاری نیند کو آتے حیا نہیں آتی
عدو ہماری عیادت کو لے کے آئے انہیں
کہاں یہ مر رہی اب بھی قضا نہیں آتی
لحد پہ آئے تھے دو پھول بھی چڑھا جاتے
ابھی تک آپ میں بوئے وفا نہیں آتی
مری لحد کو وہ ان کا یہ کہہ کر ٹھکرانا
صدائے نعرۂ صد مرحبا نہیں آتی
ستم ہے اور مرے دل شکن کا یہ کہنا
شکست شیشۂ دل کی صدا نہیں آتی
جلالؔ ہم یہ نہ مانیں گے تو اسے نہیں یاد
تجھے کبھی کوئی ہچکی بھی کیا نہیں آتی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |