جس کی بخدا اس بت کافر پہ نظر ہے
Appearance
جس کی بخدا اس بت کافر پہ نظر ہے
چھاتی ہے پہاڑ اس کی تو پتھر کا جگر ہے
اے دل در دنداں کو ذرا دیکھ تو اس کے
کیا درج میں یاقوت کی یہ سلک گہر ہے
کیا صاف کہوں یار کے رخسار کا اوصاف
اک غیرت خورشید ہے ایک رشک قمر ہے
بینائی کہاں اتنی نظر آئے جو مجھ کو
باریک رگ جاں سے بھی کچھ اس کی کمر ہے
کرتا ہے دلا کس لئے تو یار کو بدنام
باعث تری رسوائی کا یہ دیدۂ تر ہے
سمجھوں نہ جدائی کو میں کیوں وصل سے بہتر
صورت تری آنکھوں کے تلے آٹھ پہر ہے
روتا ہے وہ حسرت پہ تری سوختہ جاں کی
جوں شمع سحر جو کوئی سرگرم سفر ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |