جس کا میسر نہ تھا بھر کے نظر دیکھنا
Appearance
جس کا میسر نہ تھا بھر کے نظر دیکھنا
کہتا ہے خط آئے پر ٹک تو ادھر دیکھنا
بولا وہ ہنس کے کہ ہاں دیکھے ہیں تجھ سے بہت
میں جو کہا ہے غرض مجھ کو مگر دیکھنا
دیکھوں نہ وہ دن کہ میں منت احسان لوں
شام مری اے فلک ہو نہ سحر دیکھنا
روز وداع اس کو دیکھ اک دو نظر سیر ہو
دیکھ لے پھر ہم کہاں اور کدھر دیکھنا
یار ہوا بے دماغ سن مرا شور جنوں
آہ و فغاں کا مری یارو اثر دیکھنا
جس کی تو دیکھے ہے راہ میری نظر میں ہے خوب
اک دم ادھر دیکھنا اک دم ادھر دیکھنا
اتنا گیا گزرا بھی مجھ کو نہ واں سے سمجھ
غیر تو اس کوچے سے پھر تو گزر دیکھنا
خلقت خوباں کے بیچ قبح خدا نکلے ہے
عیب ہے اسے منکرو حسن اگر دیکھنا
دیدۂ باریک بیں راہ عدم پر ہو جوں
مرگ پہ دل دھرنا ہے اس کی کمر دیکھنا
حسرتؔ اسے دل کشا جیسے ہے دریا کی سیر
میرے لب خشک اور دیدۂ تر دیکھنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |