جس نے تری بے باک ادا کو نہیں دیکھا
جس نے تری بے باک ادا کو نہیں دیکھا
واللہ کہ آنکھوں سے فضا کو نہیں دیکھا
کیوں مجھ کو سنائے نہ بھلا قصہ جنت
واعظ نے ترے مہر و وفا کو نہیں دیکھا
افسوس کہ سن ہی کے ابھی ہنستے ہو افسوس
تم نے جو اگر آہ و بکا کو نہیں دیکھا
گھبرائے ہوئے پھرتی ہے کیوں میرے طرح سے
تاثیر نے کیا میری دعا کو نہیں دیکھا
بیباکیاں دیکھیں ہیں تری بزم عدو میں
آنکھوں میں تری شرم و حیا کو نہیں دیکھا
کہتے ہیں غلط ہووے گا دشمن کا گزر خاک
کوچے میں ترے باد صبا کو نہیں دیکھا
معلوم نہیں تم کو وفا کہتے ہیں کس کو
تم نے ابھی ارباب وفا کو نہیں دیکھا
کیا خاک ہو امید مجھے اس سے وفا کی
میں نے تو کبھی اس کی جفا کو نہیں دیکھا
نازاں نہ ہوں کیوں خضر بھلا عمر پہ اپنی
حضرت نے ترا زلف رسا کو نہیں دیکھا
پردے سے نکلتے نہیں اور کہتے ہیں مجھ سے
پہچانو گے کیا ہم کو خدا کو نہیں دیکھا
آگے تری آنکھوں کے جھکائے ہوئے آنکھیں
کب آہوئے باور بہ خطا کو نہیں دیکھا
کیوں حضرت موسیٰ کی طرح نعش میں نساخؔ
گر تم نے بت ہوش ربا کو نہیں دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |