جس قدر ضبط کیا اور بھی رونا آیا
جس قدر ضبط کیا اور بھی رونا آیا
یہ طبیعت نہیں آئی کوئی دریا آیا
کام کیا جذب تمنائے زلیخا آیا
کارواں بھی چہہ یوسف ہی پہ ہوتا آیا
کوچۂ یار میں آ کر نہیں جاتا کوئی
یہ وہ جا ہے کہ یہاں جو کوئی آیا آیا
رات کیا جانیے کس طرح گزاری ہم نے
اپنے وعدے پہ شب وعدہ تو اچھا آیا
آ گئے آج وہ اغیار کے بہکانے میں
نہیں معلوم برا وقت یہ کس کا آیا
کشش شوق نے مجبور کیا ہے سو بار
میں تو واں جانے کی ہر بار قسم کھا آیا
ہاتھ دونوں نہ ہوئے سینے سے اک جائے جدا
میں چمن میں دل ناشاد کو بہلا آیا
واں سے یہ شکل بنائے ہوئے آیا قاصد
میں نے جانا مجھے پیغام قضا کا آیا
ہم نے در پردہ بھی کی تیری برائی نہ کبھی
شکر کہہ کر بھی نہ لب پر کوئی شکوا آیا
وعدۂ وصل پہ قسمیں تو نہ کھا عہد شکن
باور آیا مجھے بس اور تو آیا آیا
کہہ اٹھا آج کہ اس بت کو خدا لائے کہیں
شکر ہے لب پہ مرے نام خدا کا آیا
فتنے قدموں سے لگے رہتے ہیں گویا ہر دم
آپ کیا آئے کہ اک مجمع اعدا آیا
اشک آنکھوں میں بھرے لب پہ فغاں دامن چاک
جو تماشے کو گیا واں سے تماشا آیا
گریے کو ضبط کیا رک نہ سکے نالے آہ
ٹکڑے ہو ہو کے مرے منہ کو کلیجہ آیا
جس نے دیکھا مجھے فریاد کناں واں سالکؔ
رحم کیسا وہ برا مجھ کو ہی کہتا آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |