جس طرح دو جہاں میں خدا کا نہیں شریک
Appearance
جس طرح دو جہاں میں خدا کا نہیں شریک
تیرے جمال میں نہیں کوئی حسیں شریک
میں بھی ترا فدائی ہوں مجھ پہ بھی رحم کھا
جب تک ہے اس گمان میں کچھ کچھ یقیں شریک
اس کے ستم ہی کم ہیں جو اوروں کا نام لوں
ہے آسماں شریک نہ اس میں زمیں شریک
روز جزا امید ہے سب کو سزا ملے
اقدام قتل میں ہیں مرے سب حسیں شریک
اے بدر تیرا دعویٔ یکتائی سب غلط
جملہ صفات میں ہے ترے وہ جبیں شریک
سچ پوچھئے تو جان جہاں میرے قتل میں
ترچھی نظر کے ساتھ ہی چین جبیں شریک
واعظ تو باغ حسن کی اک بار سیر کر
ممکن ہے دل کشی میں ہو خلد بریں شریک
کیا وجہ تیرے ظلم و ستم میں مزا نہیں
اے دور چرخ آج وہ شاید نہیں شریک
بھیجا پیام جلسہ تو انداز سے کہا
عرصہ ہوا کہ ہم نہیں ہوتے کہیں شریک
پرویںؔ غلط ہے ان کو سمجھنا جدا جدا
ہیں جسم و جاں کی طرح سے دنیا و دیں شریک
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |