جزیرۂ مالٹا کے دو پھول
دل آشفتگان خالِ کنج دہن کےسویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیںجزیرہ مالٹا فی زمانہ اس سبب سے مشہور ہے کہ یورپ سے ہندوستان آنے جانے والے جہازوں کا بندرگاہ ہے۔ اس پر گورنمنٹ عالیہ برطانیہ کا قبضہ ہے۔ دراصل مالٹا جزائر کے مجموعہ کا نام ہے۔ جس میں گوز و کومیشو وغیرہ وغیرہ چھوٹے چھوٹے ٹاپو شامل ہیں۔ مالٹا کا شمالی خط عرض البلد ۳۵ درجہ ۵۳ ثانیہ ۴۹ دقیقہ اور اس کا شرقی طول البلد ۱۴ درجہ ۳۰ ثانیہ ۲۸ دقیقہ ہے۔ باشندوں کی زبان عربی اور اٹالی ہے۔ یہ جزیرہ بہت شاداب ہے۔ اس میں رنگترے، انگور، انجیر قابل پسند ہوتے ہیں۔ ا س کے ایک باغ میں ۴۰ فٹ لمبے سرو آزاد ہیں، جنہیں دیکھ کر سیاح حیران ہوجاتا ہے۔ زراعت بھی یہاں خوب ہوتی ہے۔ انگریزی حکومت کے سبب سے اس وقت مالٹا گل و گلزار ہے۔ مگر اب سے ایک ہزار برس پہلے یہ جزیرہ برائے نام آباد تھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں جہاز رانی کا فن یورپ میں بہت کم تھا۔ بادی جہاز چلتے تھے۔ اس واسطے ہر جزیرہ بندرگاہ نہ تھا اور نہ جزیروں کی اس زمانہ میں قدر و قیمت تھی۔مالٹا جین ڈی نام ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، جس کے رہنے والے عیسائی تھے۔ جین ڈی سے باہر مغرب کی طرف چار فرلانگ کے فاصلہ پر ایک گرجا تھا۔ اور گرجا کے قریب اس کے متولی پادری جے اے رابنسن مع اپنے اہل و عیال کے ایک حویلی میں رہتے تھے۔ اس گرجا میں اتوار کے دن صبح اور شام کے وقت نماز ہوتی تھی اور قصبہ کے رہنے والے جب تقاضہ کرتے تھے تو پادری صاحب وعظ بھی کہہ دیا کرتے تھے۔ قصبہ جین ڈی کے شرقی جانب سمندر کے کنارے آبادی سے ایک میل پر ایک بنگلہ میں میجر میکس ملر مع اپنے بال بچوں کے بستے تھے۔ میجر میکس ملر کے پردادا فرانس کی ایک فوج میں میجر تھے۔ اور اسی سبب سے میکس ملر کے باپ دادا اور خود میکس ملر کے لقب سے مشہور تھے۔ میجر صاحب کی بیوی بڑی نیک عورت تھیں۔ تیس برس کی عمر تک ان کے یہاں اولاد نہ ہوئی۔ مگر جب پادری جے اے رابنسن سے انہو ں نے رجوع کی، تو ان کی دعا سے خدا نے ایک لڑکا اور ایک لڑکی عنایت فرمائی۔ لڑکا لڑکی سے بڑا تھا اور اس کا نام پادری صاحب نے کیلی رکھا تھا۔ کیلی کی بہن کا نام گل۔کیلی پندرہ برس کا اور مس گل تیرہ برس کی ہوگئی۔ دونوں بہن بھائی گلعذار، گلرو، گلبدن، غنچہ دہن تھے۔ میجر صاحب کا بنگلہ جس پشتہ پر واقع ہوا تھا، اس کے نیچے ہی سمندر بہتا تھا اور چاندنی رات میں سمندر کا نظارہ اس بنگلہ سے طلسماتی بہار دکھایا کرتا تھا۔ مگر دسمبر جنوری کی ٹھنڈی ہوائیں جب سمندر سے گزر کر بنگلہ میں آتی تھیں، تو اس وقت بنگلہ کے رہنے والوں کو تکلیف پہنچتی تھی۔ گاہ بہ گاہ میجر صاحب کے بنگلہ سے کچھ دور سمندر میں بادبانی جہاز لنگر ڈال کر ٹھہرے ہوئے دکھائی دیا کرتے تھے۔ بنگلہ سے تین فرلانگ پر میجر صاحب کے باغ اور کھیت تھے۔ اور ان باغوں اور کھیتوں کی پیداوار پر ہی میجر صاحب اور ان کے گھرانے کا گزارہ تھا۔میجر صاحب کو کتوں کا بڑا شوق تھا، مگر ان کے صاحب زادے کیلی کو ان سے بھی زیادہ کتے پالنے کا شوق ہوا۔ نوجوان کیلی نے دو قوم دار کتے پالے، مگر ایک مگرمچھ رات کے وقت بنگلہ کے غلام گردش میں آ آکر ان دونوں کا دوبار میں نوالہ کر گیا۔ مگرمچھ، گھڑیال اور اس قسم کے دریائی جانوروں کو کتے کا گوشت بہت پسند ہے اور وہ ادبدا کر کتوں کا شکار کرتے ہیں۔ کیلی کے ایک کتے کا نام کرِپ اور دوسرے کا نام جیک تھا۔ کیلی اور میجر صاحب کو کتوں کے تلف ہوجانے کا بڑا رنج ہوا۔ ایک دن میجر صاحب نے مگرمچھ کو سمندر کی سطح پر پاکر بندوق بھی سر کی مگر اس ڈھیٹھ پر کچھ اثر نہ ہوا۔ایک دن میجر صاحب کے ایک دوست کا رقعہ قصبہ جین ڈی سے اس مضمون کا آیا کہ پیرس سے جناب بشپ صاحب تشریف لائے ہیں اور پادری جے اے کے دولت خانہ پر قیام فرمایا ہے۔ بعد غروب آفتاب گرجا میں مذہب پاک پر لیکچر دیں گے۔ امید ہے کہ آپ اور آپ کی اہلیہ بھی بشپ صاحب کی زیارت اور ان کی تقریر سے بہرہ یاب ہوں گے۔مس گل اماں جان! میں بھی آپ کے ساتھ گرجا چلوں گی۔ اور بشپ صاحب کے جوتہ کو بوسہ دوں گی۔مس گل کی ماں نہیں بیٹی! تم اور تمہارا بھائی کیلی گھر میں رہےگا، اور میں اور تمہارے بابا گرجا جائیں گے۔مس گل واہ بی اماں! آپ خوب ہیں، ہم اور بھائی تو گھر میں پڑے سڑا کریں، اور آپ جاکر بشپ صاحب کی قدم بوسی کریں۔ یہ تو خدائیوں بھی نہ ہوگا (یہ کہہ کر مس گل رونے لگی)کیلی بہن تم روؤ نہیں۔ تم اور اماں جان اور ابا شوق سے گرجا تشریف لے جائیں۔ میں اکیلا گھر میں رہوں گا۔میجر صاحب ہاں بابا کیلی تم بنگلہ میں رہو۔ تمہاری بہن ہمارے جانے میں بھی کھنڈت ڈالے گی۔(۲)میجر صاحب مع اپنی میم صاحبہ اور مس صاحبہ کے عصر کے وقت قصبہ جین ڈی میں پہنچ گئے۔ تاکہ سب دوستوں کے ساتھ گرجا میں حاضر ہوں۔ آفتاب غروب ہونے کے بعد کیلی نے السی کے تیل کا لیمپ روشن کر کے بڑے کمرے کی میز پر رکھا اور وہ ایک قلمی تاریخ کے مطالعہ میں مشغول ہو گیا، اور اس کا کتا جس کا نام تندر اور قوم کا بُلی تھا، اس کی کرسی کے نیچے بیٹھا تھا۔ رات کے نو بج گئے مگر میجر صاحب گرجا سے واپس نہ آئے۔ کیلی کو اس کا خیال بھی آیا، مگر اس کے دل نے کہا، ’’بشپ صاحب کی لمبی چوڑی تقریر ابھی ختم نہ ہوئی ہوگی اور یہی وجہ بابا کے آنے کی تاخیر کی ہے۔‘‘ اور وہ کتاب کے مطالعہ میں پھر ڈوب گیا۔ دفعتاً اس کے کان میں آدمی کے پاؤں کی آہٹ آئی اور اس نے دیکھا، پادری جے اے رابنسن صاحب کی لڑکی، جس کی عمر پندرہ سال کی اور نام کلفرڈ تھا، ہانپتی کانپتی کمرہ میں آئی اور اس نے سہمی ہوئی آواز میں کہا، ’’کیلی خدا کے لئے مجھے بچاؤ، چور، بدمعاش مجھے جیتا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘کیلی تم اس وقت کہاں؟مس کلفرڈ بابا نے مجھے گاؤں بھیجا تھا، جو یہاں سے پانچ میل ہے تاکہ میں ایک زمیندار سے سو روپے وصول کر کے لاؤں جو اس نے بابا سے قرض لئے تھے، اور آج ان کے دے دینے کا وعدہ تھا۔ میں گاؤں گئی مگر وہ زمیندار نہ ملا اور مجھے اس کا انتظار کرتے کرتے گاؤں میں شام ہوگئی۔ بارے وہ سات بجے رات کے آ گیا اور اس نے سو روپے گن میرے حوالہ کئے۔ اس نے مجھے روکا کہ صبح چلی جانا۔ مگر میں نے کہا کہ بابا ساری رات پریشان رہیں گے۔ میں ایک گھنٹہ میں اپنے گھر پہنچ جاؤں گی۔ یہ کہہ کر میں گاؤں سے چل دی۔گاؤں کے بدمعاشوں نے تاڑ لیا کہ مس کلفرڈ روپیہ لے کر جاتی ہے۔ چپکے سے میرے پیچھے ہولئے۔ تاکہ میں جب جنگل میں پہنچوں تو روپیہ لوٹ کر لے جائیں۔ میں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگی۔ انہو ں نے مجھے آلیا۔ اور ان میں سے ایک بدمعاش نے چلاکر کہا، ’’اگر اپنی جان اور آبرو سلامت لے جانا چاہتی ہے تو روپیہ ہمیں دے جا۔ نہیں اسی میدان میں ہم تجھے مار کر دبا دیں گے۔‘‘ ناگہاں مجھے آپ کے بنگلہ کا جلتا ہوا لیمپ نظر آیا۔ اور مجھے یاد آگیا کہ یہ میجر صاحب کا مکان ہے اور مجھے اس میں پناہ ملے گی۔ اس لئے میں بے تحاشہ بھاگی، اور یہاں تک آ گئی۔یہ باتیں مس کلفرڈ نے ختم ہی کی تھیں، جو پانچ آدمی بدصورت، دراز قد، بنگلہ کے کمرے میں داخل ہوئے۔ کیلی میجر میکس ملر کا بیٹا تھا۔ اس نے تلوار اٹھانی چاہی، مگر بدمعاشوں نے اس بے گناہ کو پلک مارنے کی مہلت نہ دی اورا س کے گلے میں تانت کا پھندا ڈال کر زور سے کھینچا اور ایک آن کی آن میں وہ بے جان ہوکر زمین پر گرا۔ کیلی کو مرتا دیکھ کر مس کلفرڈ کی چیخ نکل گئی اور وہ بھی دھڑام سے زمین پر گری۔ خدا جانے مری یا زندہ رہی، مگر بدمعاشوں نے اس کے اور کوٹ میں سے سو روپے نکال لئے اور چمپت ہو گئے۔ کیلی کے وفادار کتے نے ان کا پیچھا کیا اور وہ بھی بدمعاشوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ سمندر کے مگرمچھ نے جو کیلی کے دو کتے کھا چکا تھا، بنگلہ میں سناٹا پایا تو وہ چپکے چپکے بنگلہ میں آیا۔ اور اس نے لیمپ کی روشنی میں کیلی اور کلفرڈ کی لاشیں زمین پر پڑی پائیں، یہ لاشیں ا س کے لئے نعمت غیر مترقبہ تھیں۔ دونوں کو فوراً نگل گیا اور سمندر میں جاکودا۔(۳)رات کے دس بجے بشپ صاحب کا لیکچر ختم ہوا، اور میجر صاحب میم صاحبہ اور مس گل کو لے کر گیارہ بجے بنگلہ میں آئے۔ دیکھا کہ لیمپ کی بتّی بھڑک رہی ہے۔ سارے کمرے میں ایک قسم کا سناٹا ہے اور کیلی نہیں ہے۔ میجر صاحب اور ان کی میم صاحب کو سخت حیرانی ہوئی کہ اس وقت بچہ کہاں چلا گیا۔ خواب گاہ کے کمرہ میں بلکہ بنگلہ کے چپہ چپہ میں کیلی کو ڈھونڈا۔ آوزیں دیں۔ چیخے چلاّئے، مگر کیلی اس عالم میں تھا کب، جو انہیں مل جاتا، یا ان کی بات کا جواب دیتا۔ ساری رات تشویش میں گزری۔ صبح ہوتے ہی میجر صاحب نے اپنے باغ کے اور کھیت کے کمیروں کو بلاکر چاروں طرف کیلی کی جستجو میں بھیجا۔ خود جین ڈی کو آئے تاکہ لوگو ں سے تذکرہ اور مشورہ کریں۔ قصبہ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ پادری صاحب کی اکلوتی بیٹی کلفرڈ جو گاؤں سے قرض کے روپے لینے گئی تھی، رات سے غائب ہے۔میجر صاحب کو یہ بھی خیال آیا کہ رات سے کتا بھی نہیں ہے۔ کئی مہینے پادری صاحب اور میجر صاحب نے اپنے نور نظر بچوں کی تلاش کی۔ اور سارے جزیرے کو تلپٹ کر ڈالا مگر ان غریبوں کا پتہ نہ چلا اور پتہ کیونکر لگتا۔ اگر اس واردات کو کہتے تومیجر صاحب کے بنگلہ کے در و دیوار یا لیمپ کی بتی، جن کے سامنے چوروں نے ان دونوں کو مارا اور مگرمچھ نے نگلا۔ مگر یہ سب چیزیں بے زبان تھیں۔ کیونکر کہہ سکتی تھیں۔ میجر صاحب اور پادری صاحب کا گھرانہ برسوں کیلی اور کلفرڈ کو روتا رہا، مگر انسان کا نازک دل غم سہتے سہتے پتھر بھی بن جاتا ہے۔ اس لئے اب ان لوگوں کو صبر آنے لگا اور کیلی او رکلفرڈ کی یاد کم ہونے لگی۔وقت گزرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ کیلی اور کلفرڈ کوناپید ہوئے سات برس ہو گئے۔ میجر صاحب بڑے تنومند آدمی تھے۔ مگر کیلی کے داغ نے ان کی کمر توڑ دی۔ ماں بیچاری کو آنکھوں سے کم دکھائی دینے لگا اور پادری صاحب اور ان کی بیوی کلفرڈ کے غم میں گھل گئے۔ مصیبت کے وقت خدا زیادہ یاد آتا ہے۔ اس واسطے میجر صاحب اور ان کی بیوی اتوار کے دن دونوں نمازوں کو قضا نہ کرتی تھیں، اور قربان گاہ کے سامنے حاضر ہوکر کیلی سے ملنے کے لئے دعا کیا کرتی تھیں۔ایک اتوار کو میجر صاحب اور ان کی میم صاحبہ اورمس گل گرجے میں حاضر تھیں۔ نماز ابھی شروع نہ ہوئی تھی کہ ناگہاں دو اجنبی آدمی گرجا میں داخل ہوئے۔ ایک مرد اور ایک عورت، دونوں کے دونوں اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے۔ وہ جلدی سے پادری صاحب کی کرسی کے پاس پہنچے۔ پادری صاحب حیران تھے کہ یہ کون ہیں، اور اس بے باکی سے میرے پاس کیوں آئے ہیں۔ جو اُن میں سے مرد نے اپنا منہ کھول کر پادری صاحب کے قدموں کو بوسہ دیا اور چلاکر کہا کہ یہ آپ کی صاحب زادی مس کلفرڈ ہیں۔ انہیں اپنی آنکھوں میں جگہ دیجئے۔ پادری صاحب نے کہا، ’’اور نوجوان تم کون ہو۔‘‘ نوجوان میرا نام کیلی ہے۔ اور میں آپ کے دوست میجر میکس ملر کا بیٹا ہوں۔مس کلفرڈ نے اپنے بوڑھے باپ کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور ادھر سے کلفرڈ کی ماں نے آکر اپنی بچی کو گلے سے لگا لیا۔ میجر صاحب اور ان کی میم صاحبہ کو بھی تاب نہ ہوئی۔ یہ بھی سب کیلی سے لپٹ گئے۔قصبہ جین ڈی کے سب باشندوں کو ان گم شدہ کمسنوں کے ساتھ الفت تھی، اور ان کے غائب ہوجانے کا قلق رکھتے تھے۔ ان کو سلامت دیکھ کر ان لوگوں نے خوشی کے نعرے اس زور سے مارے کہ گرجا کا ہال گونج اٹھا۔ تعجب ہے کہ والدین اپنے بچوں کو دیکھ شادی مرگ کیوں نہ ہو گئے۔ نماز بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ قصبہ کے مردو زن جو حاضر نہ تھے، اس خبر کو سن کر وہ بھی دوڑے چلے آئے اور سارا گرجا آدمیوں سے بھر گیا۔ اور عوام الناس نے کہا، ’’مسٹر کیلی ہم تمہیں گرجا سے اس وقت تک قدم نہیں نکالنے دیں گے جب تک تم اپنے غائب ہونے کا حال مفصل نہ سنا دوگے۔‘‘ (۴)کیلی اس طور پر رات کے نو بجے مس کلفرڈ ہمارے بنگلہ پر آئیں، اور وہ حال کہہ رہی تھیں، جو بدمعاش بھی بنگلہ میں گھس آئے، اور انہو ں نے میرے گلے میں پھانسی ڈال دی، اور مس کلفرڈ بھی اس صدمہ کو دیکھ کر بیہوش ہو گئیں۔ جب مجھے اور مس کلفرڈ کو ہوش آیا تو ہم نے اپنے تئیں ایک جہاز کے کمرے میں پایا۔ اور جہاز کے کپتان کی زبانی معلوم ہوا کہ ہمارے بنگلہ سے کچھ دور اسی شب کو اس جہاز نے تھوڑی دیر کے لئے لنگر ڈالا تھا اور کچھ ملاح صبح کے قریب قضائے حاجت کے لئے کشتی میں بیٹھ کر کنارہ پر گئے تھے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک مگرمچھ زمین پر پڑا ہے اور کچھ بے چین ہے۔ یکایک اس نے استفراغ کیا اور اس استفراع میں ایک آدمی اس کے منہ سے نکل کر زمین پر گرا۔ پھر دوسرے استفراغ میں دوسرا آدمی اس کے منہ سے نکلا اور وہ ہلکا ہوکر سمندرمیں بھاگ گیا۔ ملاح ان دونوں آدمیوں کو کشی میں لاد کر جہاز میں لے آئے۔ اور وہ دونوں آدمی تم دونوں زن و مرد تھے۔ مجھے ڈاکٹری میں بھی دخل ہے۔ میں نے تمہاری تیمارداری کی اور خدا نے تمہیں دوبارہ زندگی بخشی۔ہم نے کپتان صاحب کی اس مہربانی کا بڑا شکریہ ادا کیا۔ رفتہ رفتہ مجھے خیال آیا کہ وہ مگرمچھ جو ہمارے بنگلہ کے نیچے سمندر میں رہتا ہے اور کتوں کا خون اس کے منہ کو لگ گیا ہے اس شب کو بنگلہ میں آیا ہوگا اور ہمیں مردہ سمجھ کر نگل گیا ہوگا۔ مگر ہمارا ڈیل ڈول اس سے ہضم نہ ہوا ہوگا اور ہمیں اس نے اگل دیا ہوگا۔ اور یہ لوگ اپنے جہاز میں ڈال کر روانہ ہو گئے ہوں گے۔ کپتان صاحب ہم پر بہت عنایت کرتے تھے او راچھی اچھی غذائیں ہمیں کھلاتے تھے۔ مگر ہم سے جہاز کے ایک نوکر نے کہا، ’’کپتان صاحب تم دونوں کی خاطر مدارات اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ تم دونوں گورے چٹے ہو۔ اور اس قسم کے غلام اور لونڈیوں کی قسطنطنیہ میں زیادہ قدرو قیمت ہے۔ تم بیچے جاؤگے۔‘‘جب مجھے اور مس کلفرڈ کو یہ بات معلوم ہوئی تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اور مس کلفرڈ نے کہا، ’’اس لونڈی بننے سے میں اپنا مرنا اچھا جانتی ہوں۔ میں تو سمندر میں کود کر اپنی جان دوں گی۔‘‘ میں نے کہا۔ تم سمندر میں گروگی تو میں بھی تمہارا ساتھ دوں گا۔ اور صلاح کر کے ہم نے دریا میں ڈوبنے کا دن مقرر کرلیا۔ او رموقعہ پاکر ہم دونوں کے دونوں ایک رات کو دریا میں گر گئے۔ اس رات کو دریا میں طوفان تھا مگر وہ طوفان ہمارے لئے رحمت ہو گیا۔ ہمارے گرنے کے ساتھ ہی دریا میں ایک موج اٹھی اور اس نے ہم دونوں کو سمندرکے کنارے پھینک دیا۔زمین کو دیکھ کر ہم خوش ہوئے اور سمجھے کہ یہاں کے رہنے والوں سے ہم اپنی مصیبت کہیں گے اور وہ ہمیں ہمارے وطن پہنچا دیں گے مگرجب ہم چلے پھرے تو معلوم ہوا کہ ویران جزیرہ ہے، مگر خودرو میوے، انار، انگور، سیب، بہی، امرود، ناشپاتی، بادام، خوبانی، ترو خشک درختوں میں لد رہے تھے۔ شیریں چشمے جاری تھے۔ ہم خدا کا شکر بجالاتے اور میوا کھا کھا کر زندگی کے دن کاٹتے۔ دو برس میں ہمارے تن کے کپڑے پرزہ پرزہ ہو گئے اور ہمیں اپنے ننگے ہوجانے کا اندیشہ ہوا۔ ایک دن جو ہم سمندر کے کنارے پہنچے تو ہم نے دیکھا سمندر میں مردے بہے چلے آتے ہیں۔ کفن کے لالچ سے میں دریا میں کودا، اور مردوں کی ٹانگ پکڑ پکڑ کر کنارے پر لایا اور اب معلوم ہوا کہ وہ سپاہیوں کی لاشیں ہیں جو کسی بحری لڑائی میں مارے گئے ہیں اور جہاز والوں نے انہیں معہ وردی سپرد دریا کردیا ہے۔میں نے اور مس کلفرڈ نے ان مردوں کے بدن سے کپڑے اتار لئے۔ پانچ برس تک ہم ان کے ہی لباس سے اپنی تن پوشی کرتے رہے۔ اس جزیرے میں پڑے پڑے ہم گھبرا گئے، مگر کوئی صورت رہائی کی پیدا نہ ہوئی۔ ایک دن ہم ساحل پر بیٹھے تھے، جو دریا میں ہمیں ایک لائف بوٹ دکھائی دی، جو دھکے کھاتی چلی جاتی تھی اور اس میں کوئی سوار نہ تھا۔ میں فوراً دریا میں کودا اور اس کشتی کو جا پکڑا اور جس طرح ممکن ہوا اسے کنارے پر لایا۔ اس میں دو تین رسیاں بھی مل گئیں۔ میں نے ایک رسی دوسری رسی سے جوڑ کر اور کشتی کے قلابہ میں باندھ کر کشتی کو ایک درخت سے باندھ دیا جو ساحل کے قریب تھا۔ غالباً کوئی جہاز دریا میں غرق ہوا تھا اور یہ کشتی اس سے الگ ہوکر چلی آئی تھی۔مس کلفرڈ نے کہا، کیلی یہ خدا نے ہمیں اس جزیرہ سے نکالنے کا سامان کیا ہے۔ اب دیر نہ کرو اور کل صبح ہی سوار ہوکر چل دو۔ کیا عجب ہے کہ اسی طرح دل کھل کر ہم لوگ وطن پہنچ جائیں۔ ہم نے شاموں شام کئی من تر و خشک میوے لاکر کشتی میں لاد دیے۔ مگر پانی کے لئے کوئی ظرف نہ تھا اس لئے شیریں پانی کشتی میں نہ رکھ سکے اور دوسرے دن خدا کا پاک نام لے کر ہم کشتی میں سوار ہو گئے اور کشتی کو اسی کے بھروسہ پر چھوڑ دیا۔ آج تین مہینہ کے بعد ہماری کشتی اس جزیرہ مالٹا میں پہنچی۔ ہم خدا کا شکر بجا لائے۔ معلوم ہوا کہ آج اتوار کا دن ہے۔ اسی لئے ہم دونوں کشتی سے اترکر بھاگا بھاگ گرجا میں آئے تاکہ ہماری نماز قضا نہ ہو۔ جب کیلی نے اپنی داستان ختم کی تو پھر خوشی کے نعرے بلند ہوئے۔پادری صاحب بیٹی کلفرڈ! آسمانی باپ رحیم و کریم بھی ہے اور جبار و قہار بھی ہے۔ سچ بتا تو نے اس تنہائی میں اپنی عصمت پر تو حرف نہیں آنے دیا۔مس کلفرڈ بابا گناہ نہیں چھپا کرتا۔ آپ آسمانی باپ کے نائب ہیں۔ کیا آپ مجھ میں کوئی گناہ کی علامت پاتے ہیں۔پادری صاحب میں تو تیرے چہرہ پر وہی بھولا پن پاتا ہوں جو ایک کنواری پارسا کی شکل پر ہوا کرتا ہے، مگر کیا عجب ہے کہ مجھ سے زیادہ آنکھوں والا اس ہجوم میں ہو اور وہ تیرے حق میں کچھ اور فیصلہ کرے۔ پادری صاحب یہ کہہ رہے تھے جو تمام مخلوق نے چلاکر کہا ’’بیشک مس کلفرڈ اور کیلی پاک ہیں اور ان کی پاکیزگی ہی انہیں ان آفتوں سے بچاکر ہمارے سامنے لائی ہے۔ مگر مائی لارڈ اب آپ ہمارے سامنے کلفرڈ کا نکاح کیلی سے کر دیجئے۔‘‘ پادری صاحب میں پنچوں کے کہنے سے سرتابی نہیں کرسکتا۔اسی وقت مسٹر کیلی کا نکاح کلفرڈ سے ہو گیا اور قصبہ والوں نے مل کر میجر صاحب اور ان کی بیوی کو بیٹے اور بہو کے پانے کی مبارکباد دی اور خدا نے میجر صاحب کا بنگلہ پھر آباد کر دیا۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |