جذب الفت نے دکھایا اثر اپنا الٹا
جذب الفت نے دکھایا اثر اپنا الٹا
آہ جب ہونٹھوں پر آئی تو کلیجہ الٹا
رات بھر بیٹھے رہے منتظری میں اس کی
صبح جب ہو گئی حسرت سے بچھونا الٹا
حق بہ جانب ہے اگر ہم سے وہ مہوش پھر جائے
چلن افلاک کا اوندھا ہے زمانا الٹا
جائے حیرت ہے جو نفرت نہ ہو خود بینی سے
نظر آتا ہے اس آئینے میں چہرا الٹا
زینت رنگ بقا چاہتے ہیں نقش فنا
اس مرقع کا دکھائی دیا نقشہ الٹا
ملگجی چادر مہتاب نظر آنے لگی
اس نے چہرے سے جو سوتے میں دوپٹا الٹا
اب تو یاروں سے بھی یاری کی توقع نہ رہی
حال پرسی کے عوض کرتے ہیں شکوا الٹا
قفل دروازے میں کیوں آج نظر آتا ہے
کون جھانکا تمہیں کس شخص نے پردا الٹا
مر گیا میں جو مجھے پیار سے مارا اس نے
سیدھی تلوار ہوا اس کا طمانچہ الٹا
مے کدہ چھوڑ کے کیوں خم میں فلاطوں بیٹھا
ایسی ہی عقل نے یونان کا تختہ الٹا
مرض عشق میں آرام کسی طور نہیں
کبھی سیدھا جو دم آیا تو کلیجہ الٹا
پھر الٹ کر نہ خبر لی ہوئے ایسے غافل
اب تو آؤ کہ میں دم لیتا ہوں الٹا الٹا
نہ تو وہ پھول نہ کلیاں نہ وہ سبزہ نہ بہار
رت کی پھرتی ہے چمن زار کا تختہ الٹا
ایک جلوہ تو بھلا اور بھی وقت رخصت
بہر گل باد بہاری کوئی جھونکا الٹا
بحرؔ کیا کوچۂ جاناں سے پھرے گھر کی طرف
کبھی دیکھا نہیں بہتے ہوئے دریا الٹا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |