جب ہم نشیں ہمارا بھی عہد شباب تھا
Appearance
جب ہم نشیں ہمارا بھی عہد شباب تھا
کیا کیا نشاط و عیش سے دل کامیاب تھا
حیرت ہے اس کی زود روی کیا کہیں ہم آہ
نقش طلسم تھا وہ کوئی یا حباب تھا
تھا جب وہ جلوہ گر تو دل و جاں میں دم بدم
عشرت کی حد نہ عیش و طرب کا حساب تھا
تھے باغ زندگی کے اسی سے ہی آب و رنگ
دیوان عمر کا بھی وہی انتخاب تھا
اپنی تو فہم میں وہی ہنگام اے نظیرؔ
مجموعۂ حیات کا لب لباب تھا
![]() |
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |