Jump to content

جب شام ہوئی دل گھبرایا لوگ اٹھ کے برائے سیر چلے

From Wikisource
جب شام ہوئی دل گھبرایا لوگ اٹھ کے برائے سیر چلے (1900)
by حبیب موسوی
324754جب شام ہوئی دل گھبرایا لوگ اٹھ کے برائے سیر چلے1900حبیب موسوی

جب شام ہوئی دل گھبرایا لوگ اٹھ کے برائے سیر چلے
تفتیش صنم کو سوئے حرم ہم جان کے دل میں دیر چلے

گو بحر الم طوفانی ہے ہر موج عدوئے جانی ہے
اب پاؤں رکیں گے کیا اپنے اس دریا کو ہم پیر چلے

اب کام ہمارا یاں کیا ہے یہ آنا جانا بے جا ہے
جس وقت تمہاری صحبت میں ہم ہوں اور حکم غیر چلے

ہم سمجھے تھے یاں آئیں گے دن تھوڑا ہے رہ جائیں گے
پر دل کی حسرت دل میں رہی جب سوئے مکان غیر چلے

گو رنج جدائی ہے دل پر بے وقت ہے یہ دور ساغر
بیٹھے ہیں حبیبؔ احباب مگر اب تم بھی کہہ دو خیر چلے


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.