جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں
Appearance
جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں
سب چپ ہیں اب کسی کی کوئی گفتگو نہیں
نکلے جو قلب سے وہ مری آرزو نہیں
تو مل ہی جائے گر تو میں سمجھوں کہ تو نہیں
آنکھیں لڑا رہے ہو سر بزم غیر سے
اور مجھ سے یہ بیان کہ ہم جنگ جو نہیں
پیدا ہوا ہے ایک کی ضد ایک خلق میں
عزت ہے غیر کی تو مری آبرو نہیں
ٹانکے نہ کھائیں زخمیٔ تیغ نگاہ ناز
کہنے کو ہو کہ جامۂ تن میں رفو نہیں
معشوق کون سا ہے نہ ہو دل میں جس کی یاد
اس مختصر سے باغ میں کس گل کی بو نہیں
یہ حال تیری وعدہ خلافی سے ہو گیا
اب تو قسم بھی کھانے کو مجھ میں لہو نہیں
پیری ہے عاشقی کا مزہ جا چکا رشیدؔ
وہ ہم نہیں وہ دل نہیں وہ آرزو نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |