جب سے دیکھا ہے بنا گوش قمر میں تنکا
Appearance
جب سے دیکھا ہے بنا گوش قمر میں تنکا
پھانس کی طرح کھٹکتا ہے جگر میں تنکا
نیزہ بازی پہ ہمیں اپنی نہ دھمکا اے ترک
ہم سمجھتے ہیں اسے اپنی نظر میں تنکا
آتش نالۂ بلبل یہ چمن میں بھڑکی
نہ بچا نام کو صیاد کے گھر میں تنکا
خار مژگاں کو نظر بھر کے نہ دیکھا میں نے
پڑ گیا اڑ کے مرے دیدۂ تر میں تنکا
سن کے آمد تری آنکھوں سے اٹھا لیتے ہیں
دیکھتے ہیں جو پڑا راہ گزر میں تنکا
گرد اس بحر صفا کے میں پھرا کرتا ہوں
رہتا ہے گردی میں جس طرح بھنور میں تنکا
آہ سوزاں نے جلائے ترے جنگل سیاحؔ
نام کو بھی نہ رہا ایک شجر میں تنکا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |