جب سے خط ہے سیاہ خال کی تھانگ
Appearance
جب سے خط ہے سیاہ خال کی تھانگ
تب سے لٹتی ہے ہند چاروں دانگ
بات عمل کی چلی ہی جاتی ہے
ہے مگر اوج بن عنق کی ٹانگ
بن جو کچھ بن سکے جوانی میں
رات تو تھوڑی ہے بہت ہے سانگ
عشق کا شور کوئی چھپتا ہے
نالۂ عندلیب ہے گلبانگ
اس ذقن میں بھی سبزی ہے خط کی
دیکھو جیدھر کنوئیں پڑی ہے بھانگ
کس طرح ان سے کوئی گرم ملے
سیم تن پگھلے جاتے ہیں جوں رانگ
چلی جاتی ہے حسب قدر بلند
دور تک اس پہاڑ کی ہے ڈانگ
تفرہ باطل تھا طور پر اپنے
ورنہ جاتے یہ دوڑ ہم بھی پھلانگ
میں نے کیا اس غزل کو سہل کیا
قافیے ہی تھے اس کے اوٹ پٹانگ
میرؔ بندوں سے کام کب نکلا
مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |