Jump to content

جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا

From Wikisource
جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا
by میر انیس
294941جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوامیر انیس

جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا
فوجِ خدا پہ سایۂ ابرِ کرم ہوا
چرخ زبر جدی پے تسلیم خم ہوا
پنجے پہ سات بار تصدق حشم ہوا
دیکھا نہ تھا کبھی جو علم اس نمود کا
دونوں طرف کی فوج میں غل تھا درود کا

وہ شان اس قلم کی وہ عباس کا جلال
نخلِ زمردی کے تلے تھا علی کا لال
پرچم پہ جان دیتی تھیں پریوں کا تھا یہ حال
غل تھا کہ دوشِ حور پہ بکھرے ہوئے ہیں بال
ہر لہر آبدار تھی کوثر کی موج سے
طوبیٰ بھی دب گیا تھا پھریرے کی اوج سے

تھا پنجتن کا نور جو پنجے میں جلوہ گر
اعمیٰ کی پتلیوں میں بھی تھا روشنی کا گھر
ذرے نثار کرتے تھے اٹھ اٹھ کے اپنا زر
تکتے تھے فوق سے تو ملک تخت سے بشر
اللہ ری چمک علمِ بوتراب کی
تارِ نظر بنی تھی کرن آفتاب کی

قربان احتشام علمدار نام ور
رخ پر جلالت شہ مرداں تھی سر بسر
چہرہ تو آفتاب سا اور شیر کی نظر
قبضے میں تیغ بر میں زرہ دوش پر سپر
چھایا تھا رعب لشکرِ ابنِ زیادؔ پر
غل تھا چڑھے ہیں شیر الٰہی جہاد پر

وہ اوج وہ جلال وہ اقبال وہ حشم
وہ نور وہ شکوہ وہ توقیر وہ کرم
پنجے کی وہ چمک وہ سر افرازیِ علم
گرتی تی برق فوجِ مخالف پہ دم بہ دم
کیا رفعتِ نشانِ سعادت نشان تھی
سائے میں جس نشان کے طوبیٰ کی شان تھی

پنجہ اٹھا کے ہاتھ یہ کہتا تھا بار بار
عالم میں پنجتن کی بزرگی ہے آشکار
یہ شش جہت انہیں کے قدم سے ہے برقرار
کیوں ہفتہ دوست ہوتےہو اے قوم نابکار
آٹھوں بہشت ملتے ہیں مولا کے نام سے
بیعت کرو حسین علیہ السلام سے

غرفوں سے جھانک جھانک کے بولی ہر ایک حور
صلِ علیٰ علم کی چمک ہے کہ برق طور
یارب رہے نگاہ بد اس کی ضیا سے دور
پنجہ ہے یہ کہ ایک جگہ پنجتن کا نور
جلوے ہیں سب محمد و حیدر کی شان کے
قربان اس جواں کے نثار اس نشان کے

آگے کبھی نہ دیکھی تھی اس حسن کی سپاہ
دنیا بھی خوبیوں کا مرقع ہے واہ واہ
دیکھیں کسے کسے کہ ہے ایک ایک رشکِ ماہ
جاتی ہے جس کے رخ پہ تو پھرتی نہیں نگاہ
دیکھو انہیں دموں سے ہے رونق زمین کو
چن کر حسین لائے ہیں کس کس حسین کو

شہرہ بہت تھا حسن میں کنعاں کے ماہ کا
قصہ سنا ہوا ہے زلیخا کی چاہ کا
یاں آفتاب کو نہیں یارا نگاہ کا
یوسف ہے ایک ایک جواں اس سپاہ کا
سنتے تھے ہم کہ عالمِ ایجادِ زشت ہے
ایسے چمن کھلے ہیں کہ دنیا بہشت ہے

ہم شکل مصطفیٰ کا ہے کیا حسن کیا جمال
صبحِ جبیں بھی اور شبِ گیسو بھی بے مثال
یہ لب یہ خط یہ چشم یہ ابرو یہ رخ یہ خال
یاقوت و مشک و نرگس و نجم و مہ و ہلال
اک گل پہ یاں ہزار طرح کی بہار ہے
چہرہ نہ کہیے قدرتِ پروردگار ہے

لخت دلِ حسن بھی ہے کس مرتبہ حسیں
جس کے چراغ حسن سے روشن ہے سب زمیں
یہ زلف مشک بیز یہ آئینہ جبیں
سرمایۂ خطا و ختن کائنات چیں
رخ کی بلائیں لیتی ہیں پریاں کھڑی ہوئی
سہرے کی ہر لڑی سے ہیں آنکھیں لڑی ہوئی

نامِ خدا میں عون و محمد بھی کیا شکیل
اک مہرے بے نظیر ہے اک بدرِ بے عدیل
افروختہ ہیں رخ یہ شجاعت کی ہے دلیل
ہمت بڑی ہے گو کہ ہیں عمریں ابھی قلیل
مثلِ علی ہیں جنگ و جدل پر تلے ہوئے
دونوں کے نیمچوں کے ہیں ڈورے کھلے ہوئے

عباس نام ور بھی عجب سج کا ہے جوان
نازاں ہے جس کے دوشِ منور پہ خود نشان
حمزہ کا رعب صولت جفرؔ علی کی شان
ہاشم کا دل حسین کا بازو ، حسن کی جان
کیوں کر نہ عشق ہو شہ گردوں جناب کو
حاصل ہیں سیکڑوں شرف اس آفتاب کو

اس مہر کو تو دیکھو یہ ذرے ہیں جس کے سب
سرتاج آسمان و زمیں نورِ عرش رب
ابرِ کرم خدیو عجم خسرو عرب
عالی ہمم امامِ امم شاہِ تشنہ لب
جنباں زبانِ خشک ہے ذکر الٰہ میں
گویا کھڑے ہیں ختم رسل رزمگاہ میں

کیا فوج تھی حسین کی اس فوج کے نثار
ایک ایک آبروئے عرب فخرِ روزگار
جرار و دیں پناہ نمودار نامدار
لڑکوں میں سبزہ رنگ کوئی کوئی گل عذار
فوجیں کوئی سماتی تھیں ان کی نگاہ میں
وہ سب پلے تھے بیشہ شیر الہٰ میں

ایک ایک ملک جرأت و ہمت کا بادشاہ
کیواں خدم سپہر حشم عرشِ بارگاہ
آنکھیں غزالِ رشک مگر شیر کی نگاہ
وہ رعب چتونوں میں کہ اللہ کی پناہ
دیکھا تو دل کو توڑ کے برچھی نکل گئی
ابرو ذرا جو ہل گئے تلوار چل گئی

وہ اشتیاقِ جنگ میں لڑکوں کے ولولے
بے تاب تھے کہ دیکھیے تلوار کب چلے
چہرے وہ آفتاب سے وہ چاند سے گلے
سب فاطمہ کی بیٹیوں کی گود کے پلے
اک اک رسولِ حق کی لحد کا چراغ تھا
جس پر علی نے کی تھی ریاضت وہ باغ تھا

اکبر سے عرض کرتے تھے سینہ سپر کیے
یہ نیمچے نہ لیویں گے دم بے لہو پییے
گر آج مر گئے تو قیامت تلک جیے
صدقے ہوں اس قدم پہ یہ سر ہیں اسی لیے
آقا کے آگے لطف ہے تیغ آزمائی کا
آج آپ دیکھیے گا تماشا لڑائی کا

بچپن پہ خادمانِ او لوالعزم کے نہ جائیں
جب چاہیں معرکے میں ہمیں آپ آزمائیں
تن تن کے روکیں برچھیاں ہنس ہنس کے زخم کھائیں
بجلی گر ےتو منہ پہ جھجک کر سپر نہ لائیں
جھپکے پلک کسی سے تو آنکھیں نکالیے
بڑھ کر ہٹیں جو پانوں تو سر کاٹ ڈالیے

کہتے تھے مسکرا کے یہ زینب کے دونوں لال
کھلتے ہیں خود دلیروں کے جوہر دمِ جدال
ہر وقت چاہیے مددِ شیر ذو الجلال
نعرے ابھی کریں تو ہلے عرصۂ قتال
اتری ہے تیغ جن کے لیے وہ دلیر ہیں
ہم سب کو جانتے ہیں کہ شیروں کے شیر ہیں

یہ چہچہے جو کرتے تھے باہم وہ گلعذار
شپیر دیکھتے تھے کنکھیوں سے بار بار
پاس آ کے عرض کرتے تھے عباسِ نامدار
سنتے ہیں آپ کہتے ہٰن جو کچھ یہ جاں نثار
جرأت ٹپک رہی ہے ہر اک کے کلام سے
یہ نیمچے رکیں گے بھلا فوجِ شام سے

یہ سن یہ زور شور یہ عمریں یہ آن بان
یہ بھولے بھولے منہ پہ جواں مرد یا ں یہ شان
باتیں رجز سے کم نہیں اللہ رے خوش بیان
چلتی ہے ذوالفقار علی کی طرح زبان
کس دبدبے سے کاندھوں پہ نیزے سنبھالے ہیں
گویا چلن لڑائی کا سب دیکھے بھالے ہیں

زینب کے لاڈلوں کی طرف دیکھیے حضور
مثلِ عرق ٹپکتا ہے پیشانیوں سے نور
رخ پر جلال شیر خدا کا ہے سب ظہور
پر تو گلوں کا ہے کہ چمکتی ہے برقِ طور
دونوں میں صاف حیدر و جعفر کے طور ہیں
اللہ کی پناہ یہ تیوری ہی اور ہیں

یہ ذکر تھا کہ بجنے لگا طبل اس طرف
مشکل کشائی کی فوج نے باندھی ادھر بھی صف
تیروں نے رخ کیا سوئے ابنِ شہ نجف
سینوں کو غازیوں نے ادھر کر دیا ہدف
تھا بسکہ شوقِ جنگ ہر اک رشکِ ماہ کو
جوش آ گیا وغا کا حسینی سپاہ کو

غصے سے آفتاب ہوئے مہ وشوں کے رنگ
فوجوں پہ جا پڑیں یہ دلوں کی ہوئی امنگ
تن تن کے برچھیاں جو سنبھالیں برائے جنگ
بے چین ہو گئے فرسِ ابلق و سرنگ
پاسِ ادب سے شاہ کے صف بڑھ کے تھم گئی
پٹری ہر اک سوار کی گھوڑے پہ جم گئی

تنتا ہوا بڑھا کوئی قبضے کو چوم کے
بھالا کسی نے رکھ لیا کاندھے پہ جھوم کے
بولا کوئی یہ غول ہیں کیا شام و روم کے
ٹکڑے اڑائیں گے عمر و شمر شوم کے
نامرد ہیں جو آنکھ چراتے ہیں مرد سے
دونوں کو چار کر کے پھریں گے نبرد سے

دو لاکھ سے نظر کسی غازی کی لڑ گئی
بل کھا کے رخ پہ زلف کسی کی اکڑ گئی
چتون کسی کی شورِ دہل سے بگڑ گئی
منہ سرخ ہو گیا شکن آبرو پہ پڑ گئی
نکلا کوئی سمند کو رانوں میں داب کے
غصے سے رہ گیا کوئی ہونٹوں کو چاب کے

بڑھ کر کسی نے تیر ملایا کمان سے
نیزہ کوئی ہلانے لگا آن بان سے
نعرہ کسی کا پار ہوا آسمان سے
تلوار کھینچ لی کسی صفدر نے میان سے
ایک شور تھا کہ تلخ کیا ہے حیات کو
لاشوں سے چل کے پاٹ دو نہرِ فرات کو

سنتے ہی یہ کلام جو انانِ نام ور
لڑکے الگ کھڑے ہوئے غول اپنا باندھ کر
کہتے تھے نیمچے لیے وہ غیرتِ قمر
یارب شکست کوفیوں کو دے ہمیں ظفر
سر کے نہ پھر وغا میں جو بڑھ کے قدم گڑے
جاکر درِ یزید پہ اپنا علم گڑے

عباس شہ سے کہتے تھے بپھرے ہوئے ہیں شیر
تیر اس طرف سے آ چکے اب کس لیے ہے دیر
دو دن کی بھوک پیاس میں ہیں زندگی سے سیر
مولا غلام سے کہیں رکنے کے یہ دلیر
پاسِ ادب سے غیظ کو ٹالے ہوئے ہیں یہ
شیر خدا کی گود کے پالے ہوئے ہیں یہ

کس کو ہٹائے کس کو سنبھالے یہ جاں نثار
مرنے پہ ایک دل ہیں بہتر وفا شعار
ہے مصلحت کو دیجیے اب اذن کار زار
ایسا نہ ہو کہ جا پڑیں شکر پہ ایک بار
برہم ہیں سر کشی پہ سوارانِ شام کی
اکبر کی بات مانتے ہیں نہ غلام کی

جب روکتا ہوں میں انہیں اے آسماں سریر
کہتے ہیں کیوں امام کی جانب لگائے تیر
باندھے ہے سر کشی پہ کمر لشکرِ شریر
ہنگام جنگ شیر کے بچے ہوں گوشہ گیر
کس قہر کی نظر سے لعینوں کو تکتے ہیں
بچوں کو ہے یہ غیظ کہ آنسو ٹپکتے ہیں

اک اک جری کو تشنہ جرأت کا جوش ہے
عالم ہے بے خودی کا پہ مرنے کا ہوش ہے
ہر صف میں یا علی ولی کا خروش ہے
کہتے ہیں بار بار کہ سر بارِ دوش ہے
مشتاق ہیں وہ پیاس میں تیغوں کے گھاٹ کے
ڈر ہے کہ مر نہ جائیں گلے کاٹ کاٹ کے

حسرت سے کی سوئے رفقا شاہ نے نظر
بولے حبیب نذر کو حاضر ہیں سب کے سر
فرمایا شہ نے ہم بھی ہیں آمادۂ سفر
اچھا بڑھے جہاد کو ایک ایک نام ور
یہ راہِ حق ہے جو قدم آگے بڑھائے گا
دربارِ مصطفی میں وہی پہلے جائے گا

مژدہ یہ سن کے شاد ہوئے غازیانِ دیں
اک اک دلیر جانے لگا سوئے فوج کیں
جب نعرہ زن ہوئے صفتِ شیر خشمگیں
تھرائے آسماں کے طبق ہل گئی زمیں
برپا تھا شورِ حشر دلیروں کی حرب سے
فوجیں تو کیا جہاں تہہ و بالا تھا ضرب سے

اللہ رے جہاد حبیب و زہیرقین
گویا بپا تھا معرکۂ خندق و حنین
جب مر گئے وہ عاشقِ سلطان مشرقین
مقتل میں پیٹتے ہوئے دوڑے گئے حسین
یوں جاکے روئے ان کے تنِ پاش پاش پر
جس طرح بھائی روتا ہے بھائی کی لاش پر

خالی ہوا قدیم رفیقوں کا جب پرا
کانپا سپہر شہ نے دمِ سردیوں بھرا
کٹنے لگا عزیزوں کا بھی جب چمن ہرا
گہ روئے آپ ہاتھ جگر پر کبھی دھرا
لڑکے جو یک بہ یک کئی ہاتھوں سے کھو گئے
ٹکڑے حسن کی طرح کلیجے کے ہو گئے

تھی قہر حق عقیل کے پوتوں کی کارزار
شمشیر حیدری کا نمونہ تھے جن کے وار
عزت عرب کی رکھ گئے جعفر کے یادگار
تھے تین چار شیر کہ جھپٹے سوئے شکار
فتح و ظفر تھی مثلِ علی اختیار میں
پنجے میں تھا وہی جسے تاکا ہزار میں

نکلے برادران علمدارِ صف شکن
دکھلا دیے علی کی لڑائی کے سب چلن
بے سر تھے مورچوں میں جوانانِ پیل تن
لاشوں پہ لاشیں گرتی تھیں پڑتا تھارن پہ رن
آنکھوں میں پھر رہی تھی چمک زوالفقار کی
عباس داد دیتے تھے ایک ایک دار کی

تھا چھوٹے بھائیوں کے لیے مضطرب جو دل
گہ شہ کے پاس تھے کبھی لشکر کے متصل
نعرہ یہ تھا کہ شیر ہے ماں کا تمہیں بحل
شیرو رکے نہ ہاتھ بدن گو ہے مضمحل
یہ وقتِ آبرو ہے بڑی جد و کد کرو
ہاں بھائیو امام کی اپنے مدد کرو

الٹو پروں کو بڑھ کے صفوں کو بچھا کے آؤ
ساحل کے پاس خون کا دریا بہا کے آؤ
جب باگ اٹھاؤ فوج کے اس پار جا کے آؤ
یا مر کے آؤ یا انہیں رن سے بھگا کے آؤ
ہاں صفدر و نشاں نہ رہے فوجِ شام کا
بیٹوں کو پاس چاہیے بابا کے نام کا

رہ کر حسین کہتے تھے بھائی سے دم بہ دم
دولت پدر کی لٹتی ہے اور دیکھتے ہیں ہم
جینے نہ دے گا آہ ہمیں بھایئوں کا غم
عباس عرض کرتے تھے اے قبلۂ امم
اب باپ کی جگہ شہ عالی مقام ہیں
صدقے نہ کس طرح ہوں کہ ہم سب غلام ہیں

بے جاں ہوئے جو راہِ خدا میں دو شیرِ نر
حضرت ضعیف ہو گئے خم ہو گئی کمر
ماتم میں تھے کہ موت نے لوٹا حسن کاگھر
اک دم میں قتل ہو گئے دونوں جواں پسر
سب چل بسے نبی و علی پاس رہ گئے
ستر دو تن میں اکبر و عباس رہ گئے

آیا نظر جو لاشۂ نوشاہِ نیک خو
اکبر کی چشمِ تر سے ٹپکنے لگا لہو
کی غیظ کی نظر طربِ لشکرِ عدو
پہلے سے آئے روتے ہوئے شہ کے روبرو
نکلی یہ بات جوشِ بکا میں زبان سے
قاسم کے ساتھ جائیں گے ہم بھی جہان سے

بچپن سے ہم سے یہ نہ ہوئے تھے کبھی جدا
سوئے تو ایک فرش یہ کھیلے تو ایک جا
طفلی کا ساتھ چھوٹ گیا وامصیبتا
مرجائے ایسا بھائی تو جینے کا لطف کیا
حسرت یہ ہے کہ تیغوں سے تن پاش پاش ہو
پہلو میں ابنِ عم کے ہماری بھی لاش ہو

شہ نے کہا کہ سچ ہے یہ ایسا ہی ہے الم
خالق جہاں میں بھائی کا بھائی کو دے نہ غم
بازو کا ٹوٹنا اجل آنے سے کیا ہے کم
مر مر کے غم میں بھائی حسن کے جیے ہیں ہم
تازہ تھا غم پدر کا خوشی دل سے فوت تھی
عباسِ نامدار نہ ہوتے تو موت تھی

بھائی کے بعد ان سے ملی لذتِ حیات
بے کس کے غم گسار تھے یہ یا خدا کی ذات
خالی نہ پائی مہرو مروت سے کوئی بات
سویا جو میں تو ان کو کٹی جاگنے میں رات
صدمے بھلائے دل سے حسن کی جدائی کے
رونے نہیں دیا مجھے ماتم میں بھائی کے

ہے ان کے اتحاد کا سب سے جدا مزا
بیٹے کا لطف بھائی کاحظ باپ کا مزا
ملتا ہے بات بات میں ہر دم نیا مزا
اوجھل یہ آنکھ سے ہوں تو جینے کا کیا مزا
قائم رکھے خدا کہ علی کے نشان ہیں
مالک یہی ہیں گھر کے یہی تن کی جان ہیں

قوت جگر کی تم ہو تو یہ بازوؤں کا زور
بچھڑا جو دو میں ایک تو پھر میں کنار گور
ہوتا ہے زخمِ دل پہ نمک آنسوؤں کا شور
جب پتلیاں جدا ہوں تو چشمِ بشر ہے کور
تم پہلوؤں میں تھے جو یہ بے کس سنبھل گیا
پھر خاتمہ ہے جسم سے جب دم نکل گیا

ان سے نشان علی کا ہے تم سے ہمارا نام
گھر ہٹ گیا نبی کا جو دونوں ہوئے تمام
میت کے دفن کا بھی مقدم ہے انتظام
مرنے کے بعد کوئی توآئے ہمارے کام
تربت پہ تم سے گل ہوں تو دل باغ باغ ہو
اندھیر ہے جو قبر پدر بے چراغ ہو

کیجو نہ ذکر ہجر پہ صدمہ ہے دل خراش
بہرِ پدر کرو کفن و گور کی تلاش
ہوگا یہ جسم ظلم کی تیغوں سے پاش پاش
دو شخص چاہیے کہ اٹھائیں ہماری لاش
رونے کوکوئی دوست نہ یارو سرہانے ہو
فرزند پائینتی ہو برادر سرہانے ہو

اکبر نے سن کے باپ سے یہ اشکِ خوں بہائے
عباس بول اٹھے نہ خدا وہ گھڑی دکھائے
ہے زندگی یہی کہ ہمیں پہلے موت آئے
خاک اس غلام پر کہ جو آقا کی لاش اٹھائے
دستِ قوی ہیں نیزہ وصمصام کے لیے
پائیں ہیں کیا یہ ہاتھ اسی کام کے لیے

بس گر پڑا یہ کہہ کے قدم پر وہ باوفا
جھک کر کہا حسین نے بھائی یہ کیا کیا
قاسم کا ذکر کرتے تھے ہم شکلِ مصطفی
باتیں تو ان سے تھٰں تمہیں کیوں غیظ آ گیا
ہم تم تو ساتھ گلشنِ ہستی سے جائیں گے
اچھا ہماری لاش کو اکبر اٹھائیں گے

اٹھے قدم سے آپ کی الفت کے میں نثار
غصے میں بھول جاتے ہو بھیا ہمارا پیار
آنکھیں قدم پر مل کے یہ بولا وہ نام دار
بے اذن جنگ سر نہ اٹھائیں گا خاکسار
ایسا نہ ہوں خجل ہوں رسالت مآب سے
پہلے مروں گا اکبرِ عالی جناب سے

صدقہ علی کی روح کا اکبر کو رو کیے
دے کر قسم شبیہ پیمبر کو روکیے
نورِ نگاہِ بانوئے بے پر کو روکیے
اے آفتابِ دیں مہِ انور کو روکیے
پہلے رضا ملے تو بہت نیک نام ہوں
آقا یہ شاہزادہ ہے اور میں غلام ہوں

شہ نے کہا کہ سر تو قدم سے اٹھائیے
لیجے رضائے جنگ نہ آنسو بہائیے
فرقت میں ہم مریں کہ جئیں خیر جائیے
اپنی سکینۂ جان سے جاکر مل آئیے
زوجہ کو پیٹتے ہوئے سر دیکھ لیجیے
بچوں کو اور ایک نظر دیکھ لیجیے

عباس شہ کے گرد پھرے آٹھ کے سات بار
بھائی کو گھر میں لے کےچلے شاہِ ذی وقار
بولا یہ پیک شاطر فوجِ ستم شعار
لو اذن جنگ پا چکے عباس نام دار
خود دیکھ کر یہ حال پھرا ہوں میں راہ سے
ملنے گئے ہیں خیمے میں ناموسِ شاہ سے

تھے آگے آگے ہاتھوں سے تھامے کمر امام
نعرہ یہ دم بہ دم تھا کہ اب ہم ہوئے تمام
تیغوں سے گھاٹ روک لو آیا وہ نیک نام
اب معرکہ ہے قبر کا اے ساکنانِ شام
دیکھو بچے رہو کہ لڑائی ہے شیر سے
چھوٹے گی مشکلوں میں ترائی دلیر سے

دل مل گئے سپاہ کے سنتے ہی یہ خبر
کانپے مثالِ بید جو انانِ پر جگر
ہل چل میں اس طرف کے پرے ہو گئے ادھر
ساحل سے ہٹ کے نہر پکاری کہ الحذر
پیچھے ہٹیں صفیں یہ تلاطم عیاں ہوا
دریا جو باڑھ پر تھا وہ الٹا رواں ہوا

ٹوٹے وہ مورچے جو بندھے تھے پۓ جدال
برچھی گری زمیں پہ کسی کی کسی کی ڈھال
اللہ ری ہیبتِ خلفِ شیر ذوالجلال
کانپی زمیں کھڑے ہوئے روئیں تنوں کے بال
منہ زرد ہو کے رہ گیا ہر نوجوان کا
دشتِ نبرد کھیت بنا زعفران کا

تھا شش جہت میں غل کہ یہ ہے روزِ انقلاب
الٹے گا اس زمیں کا ورق ابنِ بوتراب
اس شیر پر نہ ہوگی کوئی فوج فتح یاب
بس اب بنائے عالمِ امکاں ہوئی خراب
حملہ غضب ہے بازوئے شاہِ حجاز کا
لنگر نہ ٹو جائے زمیں کے جہاز کا

ڈر ہے ہوا تھی ایک طرف گرد اک طرف
بھرتے تھے خیبری بھی دمِ سرد اک طرف
سمٹے ہوئے تھے کوفے کے نامرد اک طرف
تھے رو سیاہ شام کے سب زرد اکطرف
بھاگے تھے نیزہ باز لڑائی کو چھوڑ کے
ضیغم نکل گئے تھے ترائی کو چھوڑ کے

تھی ابتری سپاہِ ضلالت شعار میں
اس صف میں تھی وہ صف یہ قطار اس قطار میں
سو بار جو لڑے تھے اکیلے ہزار میں
وہ جائے امن ڈھونڈھتے تھے کارزار میں
چہرے تھے زرد خوف سے حیدر کے لال کے
نامرد منہ چھپائے تھے گھونگھٹ میں ڈھال کے

سر کو دہائے فوجِ مخالف تھے بے حواس
کچھ شمر کے قریب تھے کچھ تھے عمرکے پاس
سب کا یہ قول تھا کہ ہوئی زندگی سے یاس
ضرب علی ہے ضربِ علمدارِ حق شناس
طاقت سے ہیں بھرے ہوئے بازو دلیر کے
خیبر کشا کا زور ہے پنجے میں شیر کے

اس فوج میں ہے گو یہ تزلزل یہ انتشار
ہتھیار ادھر لگاتے ہیں عباسِ نامدار
مضطر ہیں بیبیاں شہِ والا ہیں بے قرار
بھائی کے منہ کو دیکھ کے روتے ہیں زار زار
بیٹا کھڑا ہے چاک گریباں کیے ہوئے
روتی ہے سوکھی مشک سکینہ لیے ہوئے

منہ دیکھتی ہے باپ کا جب وہ بہ چشم تر
کہتے ہیں یہ اشارے سے سلطانِ بحر و بر
لٹتا ہے باپ تم کو سکینہ نہیں خبر
جانے نہ دو چچا کو ہمیں چاہتی ہو گر
آنسو بہا بہا کے نہ پانی کا نام لو
دامن قبا کا ننھے سے ہاتھوں سے تھام لو

بھائی کے اضطراب سے زینب کا ہے یہ حال
ڈھلکی ہوئی ہے سر سے روا اور کھلے ہیں بال
عباس سے یہ کہتی ہے رو کر بہ صد ملال
چھوڑو نہ شہ کو اے اسدِ کربیا کے لال
کیا کہتے ہو سکینہ سے منہ موڑ موڑ کے
بھیا کدھر چلے مرے بھائی کو چھوڑ کے

دیکھو تو حال سبط رسول فلک اساس
بیٹے کا غم بھتیجے کا ماتم ہجوم یاس
ہے کثرتِ سپاہ میں تنہا وہ حق شناس
قربان جاؤں تم تو رہو بے وطن کے پاس
عاشق ہو دلبرِ اسد ذوالجلال کے
بازو قوی تمہیں سے ہیں زہرا کے لال کے

عباس کہتے ہیں کہ نہ جاؤں تو کیا کروں
کیوں کر نہ حق امامِ زماں کا ادا کروں
الٹوں صفیں ہزاروں سے تنہا وغا کروں
یہ سر ہے الیے کہ قدم پر فدا کروں
پہونچا ہے فیض سیدِ خوشخو کے ہاتھ سے
دنیا میں کچھ تو کام ہو بازو کے ہاتھ سے

رخصت طلب ہے شاہ سے اکبر سالالہ فام
شہزادہ مرے جائے سلامت رہے غلام
للہ روکیے نہ اب اے خواہر امام
وہ امر کیجیے کہ بڑھے جس سے میرا نام
بیکس ہوں ساتھ ماں نہیں سر پر پدر نہیں
میں آپ کا غلام تو ہوں گو پسر نہیں

باتیں یہ سن کے روتی ہیں زینب جھکا کے سر
تھرا رہی ہے زوجہ عباس نام ور
چہرہ تو فق ہے گود میں ہے چاند سا پسر
مانع ہے شرم روتی ہے منہ پھیر پھیر کر
موقع نہ روکنے کا ہے نے بول سکتی ہے
حضرت کے منہ کو نرگسی آنکھوں سے تکتی ہے

کہتی ہے رو کے بانوئے عالم سے بار بار
ہم کو تباہ کرتے ہیں عباسِ نام دار
ہے لونڈیوں کے باب میں بی بی کو اختیار
کچھ آپ بولتی نہیں اس وقت میں نثار
کہیے جو روکنے کی کوئی ان کے راہ ہو
اب عنقریب ہے کہ مرا گھر تباہ ہو

اکبر کا واسطہ کوئی تدبیر کیجیے
امداد بہرِ حضرتِ شپیر کیجیے
کچھ دل کو ہو قرار وہ تقریر کیجیے
پٹکا وہ باندھتے ہیں نہ تاخیر کیجیے
اک دل ہے میرا اور کئی غم کے تیر ہیں
بی بی میں کیا کروں مرے بچے صغیر ہیں

عباس دیکھتے ہیں جو زوجہ کا اضطرار
ہوتا ہے تیر غم جگر ناتواں کے پار
روتے ہیں خود مگر یہ اشار ہے بار بار
شوہر کے غم میں یوں کوئی ہوتا ہے بیقرار
آؤ ادب سے دلبرِ زہرا کے سامنے
روتی ہیں لونڈیاں کہیں آقا کے سامنے

کھولا ہے گوندھے بالوں کو صاحب یہ کیا یہ کیا
پیٹو نہ سر کو روتا ہے فرزند مہ لقا
خیرالنسا کے لال پہ ہوتے ہیں ہم فدا
شادی کا ہے مقام کہ ماتم کی ہے یہ جا
ایذا میں صبر صاحب ہمت کا کام ہے
میری بھی آبرو ہے تمہارا بھی نام ہے

لو پونچھ ڈالو آنسوؤں کو بہرِ ذو الجلال
دیکھو زیادہ رونے سے ہوگا ہمیں ملال
میر مفارفت کا نہ کیجو کبھی خیال
قائم تمہارے سر پہ رہے فاطمہ کا لال
غم چاہیے نہ آہ و بکا چاہیے تمہیں
شہ کی سلامتی کی دعا چاہیے تمہیں

صدقے ہیں ابنِ فاطمہ پر مجھ سے سو غلام
دیکھو نہ روتے دیکھ لیں تم کو کہیں امام
کیا اشکِ خوں بہا کے بگاڑوگی میرا کام
ہم ہاتھ جوڑتے ہیں یہ ہے صبر کا مقام
پوچھیں حضورگر کہ تمہیں کیا قبول ہے
صاحب یہ کہیو تم کہ رنڈاپا قبول ہے

دیکھو کہ گھر میں اور بھی رانڈیں ہیں تین چار
آدابِ شہ سے چپ ہیں نہیں کوئی بیقرار
رہ جائے بات کرتے ہیں وہ امرا ہوشیار
دنیا ہے بے ثبات زمانہ ہے بے مدار
کیا کیا نہ تفرقے ہوئے ایک ایک آن میں
صاحب سدا کوئی بھی جیا ہے جہان میں

قاسم کو دیکھو جانبِ کبرا کرو نگاہ
گذری جو شب تو صبح کو گھر ہو گیا تباہ
دشمن کو بھی دکھائے نہ اللہ ایسا بیاہ
کیا صابرہ ہے دخترِ شپیر واہ واہ
سہتے ہیں یوں جہاں میں جفارانڈ ہونے کی
آواز بھی بھلا کوئی سنتا ہے رونے کی

آفت میں صبر کرتی ہیں اس طرح بیبیاں
ہوتا ہے صابروں کا مصیبت میں امتحاں
جل جائے دل مگر نہ اٹھے آہ کا دھواں
اف کیجیے نہ منہ سے جو پہونچے لبوں پہ جاں
چرچا رہے کہ وقت پہ کیا کام کر گئی
چھوٹی بہو علی کا بڑا نام کر گئی

شوہر نے یہ کلام کیے جب بہ چشم تر
چپ ہو گئی وہ صاحب ہمت جھکا کے سر
ہتھیار سج کے حضرتِ عباس نامور
آئے قریب لختِ دل سیدالبشر
صدمے سے رنگِ سبطِ نئی زرد ہو گیا
کانپے یہ دست و پاک بدن سرد ہو گیا

جوں جوں قریب آتے تھے عباس نامور
بے تاب تھے حسین سنبھالے ہوئے جگر
کہتے تھے اضطراب میں جھک کر ادھر ادھر
جینے نہ دے گا آہ ہمیں صدمۂ کمر
ہے زیست تلخ فاطمہ کے نورِعین کو
زینب کہاں ہو؟ آ کے سنبھالو حسین کو

سب گھر کی بیٹیوں سے کہو میرے پاس آئیں
بانو کہاں ہیں زوجۂ عباس کو بلائیں
گودی میں تشنہ کام سکینہ کو جلد لائیں
کوچ اب جہاں سے ہے ہمیں سب آکے دیکھ جائیں
یہ نوجواں سنبھالے گا جس دم مروں گا میں
عباس سے ہر اک کی سفارش کروں گا میں

یہ سن کے ساری بیبیاں آئیں یہ حالِ زار
بولے قدم پہ جھک کے یہ عباسِ نامدار
اے آفتابِ عالمیاں نورِ کردگار
ہل من مبارز ًکا ادھر غل ہے بار بار
ہیں ذرہ پروری کے چلن آفتاب میں
آقا یہ دیر کس لیے خادم کے باب میں

لڑکوں نے معرکہ میں کیے اپنے اپنے نام
کیا میں غلامِ خاص نہیں یا شہِ انام
ایسا دن اور بھی کوئی ہوئے گا یا امام
کسا کام کا جو آج نہ کام آئے گا غلام
مشکل ہے ایسے وقت میں رکنا دلیر کا
آخر پسر ہوں شیر الٰہی سے شیر کا

ہوتا جو سب سے پہلے فدا خادمِ جناب
خوش ہوتی خاکسار سے روحِ ابوتراب
اب ہوں ہر اک کے آگے خجالت سے آب آب
زہرا سے بھی حجاب ہے شبر سے بھی حجاب
اب بھی نہ تیغ و تیر اگر تن پہ کھاؤں گا
مولا بتائیے کسے پھر منہ دکھاؤں گا

ساتھ آپ کے سہوں گا نہ گر قتل کی جفا
مجھ سے رسولِ پاک خوشی ہوں گے یا خفا؟
بیزار کیا نہو ہوگا دلِ شاہ لافتا
پھر فاطمہ کہیں گی مجھے صاحبِ وفا؟
مرنے کا خط نہ جینے کا مطلق مزا رہا
انساں کی آبرو نہ رہی جب تو کیا رہا

پالا ہے مجھ کو یاشہ دل گیر آپ نے
کی ہے ہمیشہ پیار سے تقریر آپ نے
بندھوائی ہے کمر سے یہ شمشیر آپ نے
بخشی ہے سب میں عزت و توقیر آپ نے
وقتِ مدد ہے آج بھی امداد کیجیے
بندہ سمجھ کے اب مجھے آزاد کیجیے

گردن ہلا کے شہ نے کہا آہ کیا کروں؟
مشکل ہے سخت اے مرے واللہ کیا کروں؟
جینے نہ دے گا یہ غمِ جاں کاہ کیا کروں؟
چھٹتا ہے اب برادرِ ذی جاہ کیا کروں؟
دم بھر کی زندگی مجھے دشوار ہو گئی
سب تو خفا تھے موت بھی بیزار ہو گئی

غازی نے رکھ دیا قدم شاہِ دیں پہ سر
بولے گلے لگا کے شہنشاہ بحرو بر
اے تن کی جان اے سبب قوتِ جگر
یوں ہے خوشی تو خیر جہاں سے کرو سفر
بھائی نہ ہو تو بھائی کی مٹی خراب ہے
اچھا تمہارا کوچ مرا پاتر اب ہے

روتا ہوا جھکا پے تسلیم وہ جری
سب روئے مشک دوشِ مبارک پہ جب دھری
اک آہِ سرد زوجۂ عباس نے بھری
صدمے سے رنگ زرد تھا اور تن میں تھرتھری
سر سے روا بھی دوش تلک آ کے گر پڑی
بانو کے پاس خاک پہ غش کھا کے گر پڑی

نکلا وہ شیر خیمے سے باہر علم لیے
مجرے کو آئی فتح سپاہ حشم لیے
جرأت نے بڑھ کے بوسۂ تیغِ دو دم لیے
نصرت نے چومے ہاتھ ظفر نے قدم لیے
خورشید کا جلال نگاہو سے گر گیا
اقبال سر کے گرد ہما بن کے پھر گیا

آیا سجا ہوا وہ سمندبراق سیر
تھا جو فلک پہ اڑنے کو تیار مثلِ طیر
ہوتا تھا اس کے ڈر سے غزالوں کا حال غیر
رن میں سپاہِ شر اسے رو کے تو یہ بخیر
صر صر قدم کی گرد کو پاتی نہیں کبھی
ڈھونڈھے بشر پری نظر آتی نہیں کبھی

وہ زیب و زین زین کی وہ ساز وہ پھبن
زیور سے جیسے ہوتی ہے آراستہ دلہن
چشمِ سیاہ دیدۂآہوپہ طعنہ زن
سرعت یہ تھی کہ بھولتے تھے چوکڑی ہرن
جادو تھا معجزہ تھا پری تھی طلسم تھا
پاکھر نہ تھی زرہ میں تہمتن کا جسم تھا

رکھا قدم رکاب میں حیدر کے لال نے
نعلین پاک فخر سے چوما ہلال نے
بخشی جو صدرِ زیں کو ضیا خوش جمال نے
دم کو چنور کیا فرس بے مثال نے
کس ناز سے وہ رشکِ غزالِ ختن چلا
طاؤس تھا کہ سیر کو سوئے چمن چلا

خوشبو سے ارضِ پاک ریاضِ جناں بنی
گرد اٹھ کے غازۂ رخ لیلیٰ نشاں بنی
جلوے سے راہِ دشتِ بلا کہکشاں بنی
ذرے بنے نجوم زمیں آسماں بنی
سم بدر تھے تو نعل بھی چاروں ہلال تھے
نقشِ سم فرس سے ہزاروں ہلال تھے

وہ دبدبہ وہ سطوتِ شاہانہ وہ شباب
تھرا رہا تھا جس کی جلالت سے آفتاب
وہ رعبِ حق کہ شیر کا زہرہ ہو آب آب
صولت میں فرد دفترِ جرأت میں انتخاب
تیور میں سارے طور خدا کے ولی کے ہیں
شوکت پکارتی ہے کہ بیٹے علی کے ہیں

پہونچے جو دشتِ کیں میں اڑاتے ہوئے فرس
گھوڑے کو ہاتھ اٹھا کے یہ آواز دی کہ بس
دیکھیں صفیں جمی جو چپ و راس و پیش و پس
نعرہ کیا کہ نہر پہ جانے کی ہے ہوس
روکے گا جو وہ موت کے پنجے میں آئے گا
ہٹ جاؤ سب کہ شیر ترائی میں جائے گا

روکے ہمیں نکل کے جو طاقت کسی میں ہو
لے تیغ میان سے جو شجاعت کسی میں ہو
گرمائے رخش کو جو حرارت کسی میں ہو
آئے جو حرب ضرب کی قدرت کسی میں ہو
دو ہاتھ میں علی کے پسر آر پار ہیں
دریا نہیں کہ رک گیا ہم ذوالفقار ہیں

تم کیا پہاڑ بیچ میں گر ہو تو ٹال دیں
شیروں کو ہم ترائی سے باہر نکال دیں
مہلت نہ ایک کو دم جنگ و جدال دیں
پانی تو کیا ہے آگ میں گھوڑے کو ڈال دیں
منہ دیکھتے ہیں جو ہیں نگہبان گھاٹ کے
لے جائیں گھر پہ تیغ سے دریا کو کاٹ کے

سرکش ہیں سب ہماری زبردستوں سے زیر
دادا شجاع باپ الوالعزم ہم دلیر
جب رن پڑا ہے کردیے ہیں زخمیوں کے ڈھیر
لائے ہیں جا کے آگ سے پانی خدا کے شیر
عفریت بھاگتے ہیں وہ چوٹیں ہماری ہیں
بیر العلم میں کود کے تلواریں ماری ہیں

جرأت جلو میں رہتی ہے نصرت رکاب میں
لیتے ہیں گھاٹ پیر کے تیغوں کی آب میں
لکھے ہوئے ہیں شیروں کے حملے کتاب میں
فصلیں ہیں اپنے زور کی خیبر کے باب میں
ناصر ہیں بادشاہ فلک بارگاہ کے
دفتر الٹ دیے ہیں عرب کی سپاہ کے

بے مشک کے بھرے ہمیں آتا ہے چین کب
گرمی میں پیاس سے کئی بچے ہیں جاں بلب
اصفر کی گودیوں میں تڑپتے کٹی ہے شب
کیا وقت ہے حسین کے بچوں پہ ہے عضب
لالے پڑے ہوئے ہیں سکینہ کی جان کے
کانٹے مجھے دکھائے تھے سوکھی زبان کے

عبرت کی یہ جگہ ہے کہ ہم اورسوالِ آب
سقہ بنے ہیں دیکھ کے بچوں کا اضطراب
اس مشک نے کیا ہمیں عقبیٰ میں کامیاب
اللہ ری آبرو کہ بہشتی ملا خطاب
شہ سے نشانِ فوجِ پیمبر بھی مل گیا
طوبیٰ کے ساتھ چشمہ ٔ کوثر بھی مل گیا

یہ ذکر تھا کہ فوج کی جانب سے تیر آئے
نیزے اٹھا کے شیر کے منہ پر شریر آئے
یہ بھی جھپٹ کے مثلِ شہِ قلعہ گیر آئے
گیتی ہلی غضب میں جناب امیر آئے
گھوڑا اڑا پروں کو سواروں کے توڑ کے
لپکی صفوں پہ سیف بھی کاٹھی کو چھوڑ کے

آمد تھی تیغ کی کہ اجل کا پیام تھا
یہ صف اخیر تھی وہ رسالہ تمام تھا
بجلی سا ہر جگہ فرس تیز گام تھا
ششدر تھی موت چار طرف قتلِ عام تھا
اس غول پر کبھی تھی کبھی اس قطار پر
پڑتا تھا ایک تیغ کا سایہ ہزار پر

وہ تیغ کی چمک وہ تڑپ راہوار کی
رفرف کی اک شبیہ تو اک ذوالفقار کی
شوکت سوار میں شہ دلدل سوار کی
حملوں میں شان سب اسدِ کردگار کی
چتون وہی غضب وہی بے باکیاں وہی
پھرتی وہی جھپٹ وہی چالاکیاں وہی

توڑا یہ مورچہ یہ صف الٹی ادھر پھرے
تلوار خوں میں آپ پسینے میں تر پھرے
یوں خاک پہ گرا کے لعینوں کے سر پھرے
جیسے شکار کھیلے ہوئے شیرِ نر پھرے
تھی قہر کی نگاہ غضب کا جلال تھا
آنکھیں بھی سرخ سرخ تھیں چہرہ بھی لال تھا

منہ پھر گئے سپاہ کے جس سمت رخ کیا
یاں سے وہاں گئے اسے مارا اسے لیا
باقی رہے ہزار میں سو دس میں ایک جیا
اللہ رے دم لہو پہ لہو تیغ نے پیا
اس پر بھی تشنگی کو نہ تسکیں ذری ہوئی
گو یا تھی آگ پیٹ میں اس کے بھری ہوئی

بے شک تھا ان کا ہاتھ امیرِ عرب کا ہاتھ
پہونچا وغا میں سو طرف اک تشنہ لب کا ہاتھ
آئی اجل اٹھا جو کسی بے ادب کا ہاتھ
شیرِ خدا کے شیر نے مارا غضب کا ہاتھ
بازو پہ آئی تیغ دو دم شانہ کاٹ کے
پہنچے کو بھی قلم کیا دستا نہ کاٹ کے

چلتا تھا مثلِ برق یمین و یسار ہاتھ
ڈر ڈر کے جوڑتے تھے ضلالت شعار ہاتھ
ان کی نہ ایک ضرب نہ ان کے ہزار ہاتھ
کافی تھے سب کو تیغِ دو دستی کے چار ہاتھ
آواز شش جہت مین بگیروبزن کی تھی
اللہ کا کرم تھا مدد پنجتن کی تھی

نعرہ جدا صدائے بگیرِ و برہ جدا
گوشہ کماں سے دور تھے گوشوں سے رہ جدا
بکتر جدا زمین پہ ٹکڑے زرہ جدا
نیزوں کو دیکھیے تو گرہ سے گرہ جدا
اللہ رے فرق گردن وسر بھی بہم نہ تھے
کشتوں کا ذکر کیا ہے کہ تیغوں میں دم نہ تھے

جس کی طرف نظر دمِ جنگ و جلد پھری
کچھ ہٹ کے تیغ سے اسی جانب اجل پھری
رہواریوں پھرا کہ اشارے میں کل پھری
تلوار بھی گلوں کی طرف بر محل پھری
ایسے جری سے کس کو مجالِ مصاف تھی
یوں پھر کے صف کی صف کو جو دیکھا تو صاف تھی

چل پھر کے کاٹتی تھی وہ تلواریں ہاتھ پاؤں
ڈر سے بڑھا نہ سکتے تھے خونخوار ہاتھ پاؤں
سر بچ گیا تو ہو گئے بیکار ہاتھ پاؤں
چمکی گری تو آٹھ ہوئے چار ہاتھ پاؤں
روحیں پکاریں تیغ پھر آئی نکل چلو
بولی اجل اب اٹھ کے تو پنجوں کے بل چلو

تیرے ادھر قلم تو ادھر برچھیاں قلم
ترکش دو نیم ٹکڑے کمانیں نشاں قلم
ہر ہاتھ میں قلم کی طرح استخواں قلم
منہ تیغ کا خراب سناں کی زباں قلم
جب سن سے آئی سر پہ کسی بد خصال کے
گویا سموم چل گئی پھولوں پہ ڈھال کے

کی جس نے سر کشی وہی فتنہ فروہوا
ظالم ہزار میں تھا جو یکتاوہ دو ہوا
افشاں لہو سے شیر کا دستِ نکو ہوا
ٹھنڈا وہی تھا جنگ پر سرگرم جو ہوا
تھا خاتمہ سپاہ جہنم مقام کا
شعلے بجھائے دیتا تھا پانی حسام کا

وہ تیغ کھول دیتی تھی لوہے کا بھی حصار
تھا اس کے ہاتھ سے دلِ چار آئینہ فگار
آری تھیں منہ پہ تیغوں کے ایسے پڑے تھے دار
خود اپنے سر پٹکتے تھے گر گر کے بار بار
پانی وہ زہر تھا کہ پیا اور فنا ہوا
ہے آج تک زرہ کا کلیجہ چھنا ہوا

جاتی تھی ہر سرے کی طرف سن کے بار بار
چڑھ کے سوار گرتے تھے تو سن کے بار بار
اٹھتی تھی الاماں کی صدا رن سے بار بار
ہر سر کا بار اترتا تھا گردن سے بار بار
غارت ہوئے تباہ ہوئے بے تزک ہوئے
ضربِ گراں جو اٹھ نہ سکی کیا سبک ہوئے

ثابت رہی نہ ڈھال نہ مغفر نہ سر بچا
سینے میں دل کو کاٹ گئی گر جگر بچا
دو ٹکڑے ہو گیا وہ ادھر جو ادھر بچا
بے زخم کھائے ایک نہ بیداد گر بچا
تلوار سے کوئی کوئی ڈر سے ہلاک تھا
سالم تھا جس کا جسم جگر اس کا چاک تھا

سر سے کمر میں تھی تو کمر سے تہ فرس
آفت کا منہ تھا قہر کا دم خم ستم کا کس
کشتے تڑپ رہے تھے چپ و راس پیش و پس
دو تھے اگر تو چار ہوئے پانچ تھے تو دس
غل تھا وہی لڑے جسے سر تن پہ بار ہو
آفت بپا ہے کون اجل سے دو چار ہو

غل تھا شرارتوں سے اس آتش زبان کی
پریاں پکارتی تھیں کہ ہو خیر جان کی
دنیا میں شعلہ بار ہے آگ اس جہان کی
بدلی ہوئی ہے آج ہوا آسمان کی
بجلی خجل ہے نازیہ اس شعر خو کے ہیں
بوچھاڑ ہے سروں کی در یڑے لہو کے ہیں

جب بڑھ کے سن سے صورتِ تیغ علی چلی
ثابت ہوا کہ ضربتِ دستِ ولی چلی
دل پر خفی چلی تو گلوں پر جلی چلی
تن سے نکل کے روح پکاری چلی چلی
دی تیغ نے صدا کہ ارادہ کدھر کا ہے
چلائی موت چل یہی رستا سقر کا ہے

خشکی میں تھی جو آپ تو آتش تری میں تھی
ہم نام ذوالفقار علی صفدری میں تھی
تلوار تھی کہ برق لباس پری میں تھی
بے باک اس لیے تھی کہ دستِ جری میں تھی
خوں بھی اسے حلال دیت بھی معاف تھی
کاٹا تھا سو گلوں کو مگر پاک صاف تھی

سارے رسالہ دار تباہی میں پڑ گئے
اب منہ کسے دکھائیں کہ چہرے بگڑ گئے
نامی جو تھے جواں قدم ان کے اکھڑ گئے
بھاگے جو سب نشاں بھی خجالت سے گڑ گئے
علموں کے پاس ڈھیرے پھریروں کے رن میں تھے
ریتی پہ بیرقیں تھیں کہ مردے کفن میں تھے

پہنے ہوئے تھے جسم میں زر ہیں جو چست چست
چوٹیں کڑی پڑیں تو ہوئے وہ بھی سخت سست
خوفِ اجل سے بھول گئے وعدۂ نخست
ٹوٹی صفوں میں ہاتھ کسی کے نہ تھے درست
اک شور تھا کہ جان گئی اس لڑائی میں
گھوڑے بھگاؤ آگ لگی ہے ترائی میں

گھیرے تھے ایک جان کو دو لاکھ اہلِ شہر
ٹھہرے کہاں قرار کہاں لیں تھمیں کدھر
چھاتی کے پاس برچھیاں تیغیں قریبِ سر
پہلو میں اس طرف تو سنائیں ادھر تبر
ملتی نہ تھی اماں سپہ تیرہ بخت سے
گوشوں سے تیر چلتے تھے پتھر درخت سے

جب مشک کی طرف کوئی آتا تھا سن سے تیر
کہتے تھے یا حفیظ کبھی گاہ یا قدیر
چلا رہا تھا شمر جفا پیشہ و شریر
جانے نہ پائے لختِ دلِ شاہ قلعہ گیر
رخ اس جری کا خیمہ کی جانب سے موڑ دو
ہاں برچھیوں سے شیر کے سینہ کو توڑ دو

سن کر زباں درازیِ شہرِ ستم شعار
عباس مثلِ شیر جھپٹتے تھے بار بار
تلواریں سیکڑوں تھیں ہزاروں تھے نیزہ دار
توڑی اگر یہ صف تو جمی دوسری قطار
تنہا سنبھالے مشک و علم یاوغا کرے
بلوہ ہو ساری فوج کا جس پر وہ کیا کرے

مشہور ہے کہ ایک پہ بھاری ہیں دو بشر
در پے تھے اک جواں کے لیے لاکھ اہلِ شر
کھائے ادھر سے زخم جو کی اس طرف نظر
کس کس کا وار رد کریں دیکھیں کدھر کدھر
جب دم لیا تو سینہ پہ سو تیر چل گئے
پہلو کو توڑ توڑ کے نیزے نکل گئے

سینہ سپر تھے مشک پہ رو کے ہوئے تھے ڈھال
لڑنے میں بھی حسین کے بچوں کا تھا خیال
کہتا تھا ڈگمگا کے فرس پردہ خوش خصال
فرزند کو سنبھالیے یا شیرِ ذوالجلال
جا پہنچوں مشک لے کے جو تھوڑی سی راہ ہو
ایسا نہ ہو کہ پیاسوں کی کشتی تباہ ہو

یہ کہتے تھے کہ ٹوٹ پڑا لشکرِ کثیر
بس چور ہو گیا پسرِ شاہ قلعہ گیر
آکر لگا میان دوا ابرو جو ایک تیر
تیور اگیا علی ٔولی کا مہ منیر
چھوٹی جو باگ پاؤں فرس کے بھی رک گئے
پھیلا کے ہاتھ مشک سکینہ پہ جھک گئے

اب یاں تو خاتمہ ہے سنو اس طرف کا حال
ڈیوڑھی پہ ننگے سر ہے رسولِ خدا کا لال
غم سے کمر جھکی ہوئی رخ زرد جی نڈھال
یہ کرب ہے کہ ہوتا ہے جو وقتِ انتقال
گر گر اٹھے تڑپ کے ادھر سےادھر گئے
جب آہ کی تو سب نے یہ جانا کہ مر گئے

فریاد کر کے دل کبھی تھا ما جگر کبھی
پکڑی طناب خیمے کی گہ اور کمر کبھی
گھبرا کے پیارے بھائی کو پوچھی خبر کبھی
روئے پسر کی دوش پہ رکھ کھر کے سر کبھی
کی آہ سامنے کبھی زہرا کی جائی کے
رو کر کبھی لپٹ گئے بیٹے سے بھائی کے

فرماتے تھے کراہ کے اکبر سے بار بار
شانے دباؤ اے علی اکبر پدر نثار
کیسا یہ درد ہے کہ جگر کو نہیں قرار
بازو کا زور لے گئے عباسِ نامدار
واحسرتا کہ بے کس و بے یار ہو گئے
سر پیٹیں کس سے ہاتھ تو بیکار ہو گئے

چلاتے تھے کہ جانِ بر ادربس اب پھر آؤ
پہونچا ہے دم لبوں پہ ہمٰیں آ کے دیکھ جاؤ
بھیا خدا کے واسطے اب برچھیاں نہ کھاؤ
عباس ہم اخیر ہیں تشریف جلد لاؤ
پیاری تمہاری ننھے سے ہاتھوں کو ملتی ہے
اب تم کو ڈھونڈھنے کو سکینہ نکلتی ہے

حضرت تو پیٹتے ہیں یہ کہہ کر بہ صد ملال
خیمے میں غش ہے زوجہ عباسِ خوش خصال
ڈیوڑھی پہ اہلِ بیت ہیں سب کھولے سر کے بال
پردے سے منہ نکالے ہیں اطفالِ خورد سال
لب ان کے اودے اودے ہیں منہ گورے گورے ہیں
آنکھوں میں اشک ہاتھوں میں خالی کٹورے ہیں

کہتے ہیں سب لبوں پہ زبانوں کو پھیر کر
اب پانی لے کے آتے ہیں عباس نام ور
حضرت سے پوچھتی ہے سکینہ بہ چشمِ تر
میرے چچا کب آئیں گے یا شاہِ بحر و بر
کیا میں سفر کروں گی جہاں سے تب آئیں گے
بہلاتے ہیں حسین کہ بی بی اب آئیں گے

گھیرے ہیں لاکھ ان کو ستمگار ہائے ہائے
مانگو دعا کہ بھائی کو میرے خدا بچائے
وہ کہتی ہے میں پانی سے گذری نہ مشک آئے
ہے ہے بس اب چچا کو مرے کوئی پھیر لائے
رکھے خدا جہاں میں علی کی نشانی کو
میں کیا کروں گی آگ لگے ایسے پانی کو

یہ ذکر تھا کہ فتح کے باجے بجے ادھر
تڑپے زمیں پہ گر کے شہنشاہِ بحر و بر
چلائے بڑھکے فوج سے دو چار اہلِ شر
حضرت کہاں ہیں مر گئے عباسِ نامور
کیا کیا چلی ہیں تیغوں پہ تیغیں لڑائی میں
وہ زخم کھائے شیر پڑا ہے ترائی میں

افشاں ہیں سر کے خون کی چھینٹوں سے سب نشاں
عباس کانپ جاتے تھے جھکتا تھا جب نشاں
نام آوروں نے آج مٹایا عجب نشاں
کیوں اے حسین کون اٹھائے گا اب نشاں
لاش ان کی پائمال ہوئی زخم پھٹ گئے
جن میں علی کا زور تھا وہ ہاتھ کٹ گئے

آئی صدا یہ نہر کی جانب سے ایک بار
آقا تمام ہوتا ہے یہ عبدِ جاں نثار
تن سے نکل کے آنکھوں میں اٹکی ہے جانِ زار
اب ہے فقط حضور کے آنے کا انتظار
بابا کے ساتھ خلد سے تشریف لائی ہیں
حضرت کی والدہ مرے لینے کو آئی ہیں

شہ دوڑ کر پکارے کہ آتا ہوں بھائی جان
گھر لٹ گیا ہے خاک اڑاتا ہوں بھائی جان
طاقت بدن مین اب نہیں پاتا ہوں بھائی جان
اک اک قدم پہ ٹھوکریں کھاتا ہوں بھائی جان
دستِ شکستہ بیٹے کی گردن میں ڈالے ہیں
بھیا ہمیں تو اکبر مہ رو سنبھالے ہیں

دیکھا جو در سے بنتِ علی نے یہ شہ کا حال
ڈیوڑھی سے نکلی چند قدم کھولے سر کے بال
چلاتی کون قتل ہوا اے علی کے لال
مڑ کر کہا حسین نے عباس خوش خصال
دریا پہ فوجِ شام نے مارا دلیر کو
زینب اجل نے چھین لیا میرے شیر کو

خورشید مشرقین زمانے سے اٹھ گیا
سید کا نور عین زمانے نے سے اٹھ گیا
وہ عاشقِ حسین زمانے سے اٹھ گیا
زینب ہمارا چین زمانے سے اٹھ گیا
آتا نہیں قرار دلِ بے قرار کو
دریا پہ روئے جاتے ہیں خدمت گزار کو

اکبر کو ہاتھ اٹھا کے پکاری وہ سوگوار
ہے ہے حسین ہو گئے بے یار و غم گسار
ماتم جوان بھائی کا ہے تم پہ میں نثار
اکبر خدا کے واسطے بابا سے ہوشیار
گرنے لگیں تو حیدرِ صفدر کا نام لو
بیٹا پدر کے ہاتھ کو مضبوط تھام لو

اکبر پدر کو تھامے ہوئے نہر پر جولائے
غلطاں لہو میں بازوئے سرور کے ہاتھ پائے
چلائے شاہ لاش کدھر ہے کوئی بتائے
فرق آگیا ہماری بصارت میں ہائے ہائے
رو لیں گلے لگا کے تنِ پاش پاش کو
اکبر ہمیں دکھا دو برادر کی لاش کو

اکبر نے شہ کے ہاتھ پکڑ کر بہ صد بکا
رکھے چچا کے سینے پہ اور رو کے یہ کہا
لیجے یہی ہے لاشِ علمدار باوفا
چلائے جھک کے لاش پہ سلطانِ کربلا
ٹوٹی ہوئی کمر ہے سنبھالو حسین کو
بھیا ذرا گلے سے لگالو حسین کو

عباس ہاتھ کٹ گئے شانوں سے ہے غضب
ریتی پہ دو طرف یہ تمہارا لہو ہے سب
لوٹا ہمیں رسول کی امت نے بے سبب
بھیا ہماری جان نکلتی ہے تن سے اب
مر جائیں گے جلا دو ہمیں منہ سے بول کر
دو باتیں کر لو بھائی سے آنکھوں کو کھول کر

کیوں خاک پر دھرے ہو یہ رخسار خوں میں تر
آؤ ہم اپنے زانو پہ رکھیں تمہارا سر
لیتے ہو کیوں کراہ کے کروٹ ادھر ادھر
ثابت ہوا کہ جلد ہے دنیا سے آب سفر
ہے ہے دلیلِ مرگ ہے لکنت زبان کی
ہچکی نہیں یہ جسم سے رخصت ہے جان کی

غش میں سنی جو گریۂ شپیر کی صدا
چونکے تڑپ کے حضرتِ عباس باوفا
آہستگی پہ عرض کہ اے سبطِ مصطفا
اس پیار کے نثار اس الطاف کے فدا
زیبا ہے نکلے جان اگر پیشوائی کو
گویا رسول آئے ہیں مشکل کشائی کو

یہ کہہ کے روئے شہ کی طرف کی نظر بہ غور
جھ کر پکارے شاہ کہ بھیا کہو کچھ اور
تڑپا قدم پہ شہ کے وہ مقتولِ ظلم و جور
لیں ہچکیاں بگڑنے لگے تیوروں کے طور
پتھرا کے چشمِ اشک فشاں بند ہو گی
تھرا ئے دونوں ہونٹ زباں بند ہو گئیں

اکبر نے عرض کی کہ چچا جان مر گئے
جھک کر پکارے شاہ کے بھیا کدھر گئے
منہ تو اٹھاؤ خاک سے رخسار بھر گئے
واحسر تا حسین کو بے آس کر گئے
اب کون دے گا دکھ میں نبی کے پسر کا ساتھ
دم بھر میں تم نے چھوڑ دیا عمر بھر کا ساتھ

ہاں روؤ مومنو یہ بکا کا مقام ہے
تم میں شریک روحِ رسولِ انام ہے
اب رخصتِ حسین علیہ السلام ہے
تاریخ آٹھویں ہے محرم تمام ہے
موت آئی تو شریکِ عزا کون ہوئے گا؟
جو سال بھر جیے گا وہ پھر شہ کو روئے گا

آگے تمہارے مرتے جو عباس با وفا
پرسا نہ دیتے سبط رسولِ خدا کو کیا
تم سب کو دیکتے ہیں شنہشاہِ کربلا
زہرا بھی ننگے سر ہیں قیامت کرو بپا
سمجھو شریکِ بزمِ شہِ مشرقین کو
دے لو جوان بھائی کا پرسا حسین کو

پیٹو سروں کو ہوتا ہے اب مرثیہ تمام
لپٹو ضریح پاک سے کہہ کہہ کے یا امام
رخصت طلب ہے باپ سے اکبر سا لالہ فام
خاموش ہیں حسین نہیں کرتے کچھ کلام
مقتول ظلم و جور ہے اب رن میں فاطمہ
ہوتا ہے پنجتن میں کوئی دم میں خاتمہ

بس اے انیسؔ روک لے اب خامہ کی عناں
یہ غم ہے جاں گزا نہ کبھی ہوئے گا بیاں
آنکھوں سے سامعین کے بھی اشک ہیں رواں
خالق سے عرض کر کہ اے خلاقِ انس و جاں
آنکھوں سے مس کروں میں مزار بتول کو
دکھلا دے جلد مرقد سبطِ رسول کو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.