جب خدا کو جہاں بسانا تھا
Appearance
جب خدا کو جہاں بسانا تھا
تجھ کو ایسا نہیں بنانا تھا
میرے گھر تیرا آنا جانا تھا
وہ بھی اے یار کیا زمانہ تھا
پھر گئے آپ میرے کوچے سے
دو قدم پر غریب خانہ تھا
جو نہ سمجھے کہ عاشقی کیا ہے
اس سے بیکار دل لگانا تھا
آئے تھے بخت آزمانے ہم
آپ کو تیغ آزمانا تھا
اے ستم گار قبر عاشق پر
چند آنسو تجھے بہانا تھا
تو نے رہنے دیا پس دیوار
ورنہ اپنا کہاں ٹھکانا تھا
اب جہاں پر ہے شیخ کی مسجد
پہلے اس جا شراب خانہ تھا
دخل اہل ریا نہ رکھتے تھے
پاک بازوں کا آنا جانا تھا
بزم میں غیر کو نہ بلواتے
آپ کو جب ہمیں بلانا تھا
وہ چمن اب خزاں رسیدہ ہے
بلبلوں کا جہاں ترانہ تھا
سنتے ہیں وہ شجر بھی سوکھ گیا
جس پہ صیاد آشیانہ تھا
دل نہ دیتے اسے تو کیا کرتے
اے اثرؔ دکھ ہمیں اٹھانا تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |