Jump to content

جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں

From Wikisource
جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں
by انشاء اللہ خان انشا
294609جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوںانشاء اللہ خان انشا

جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں
میں تو سخن میں عشق کے بولوں نہ ہاں نہ ہوں

خلوت میں تیری بار نہ جلوت میں مجھ کو ہائے
باتیں جو دل میں بھر رہی ہیں سو کہاں کہوں

گاہے جو اس کی یاد سے غافل ہو ایک دم
مجھ کو دہن میں اپنے لگی ہے زباں زبوں

شط عمیق عشق کو یہ چاہتا ہوں میں
ابر مژہ سے رو کے اسے بے کراں کروں

طوفان نوح آنکھ نہ ہم سے ملا سکے
آتی نظر ہیں چشم سے ہر پل عیاں عیوں

ناصح خیال خام سے کیا اس سے فائدہ
کب میرے دل سے ہو ہوس دلبراں بروں

یہ اختلاط کیجئے موقوف ناصحا
معقول یعنی دل اسے اے قدرداں نہ دوں

انشاؔ کروں جو پیرویٔ شیخ و برہمن
میں بھی انہوں کی طرح سے جوں گمرہاں رہوں

خلوت سرائے دل میں ہے ہو کر کے معتکف
بیٹھا ہوں کیا غرض کہیں اے جاہلاں ہلوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.