جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں
Appearance
جب تک کہ خوب واقف راز نہاں نہ ہوں
میں تو سخن میں عشق کے بولوں نہ ہاں نہ ہوں
خلوت میں تیری بار نہ جلوت میں مجھ کو ہائے
باتیں جو دل میں بھر رہی ہیں سو کہاں کہوں
گاہے جو اس کی یاد سے غافل ہو ایک دم
مجھ کو دہن میں اپنے لگی ہے زباں زبوں
شط عمیق عشق کو یہ چاہتا ہوں میں
ابر مژہ سے رو کے اسے بے کراں کروں
طوفان نوح آنکھ نہ ہم سے ملا سکے
آتی نظر ہیں چشم سے ہر پل عیاں عیوں
ناصح خیال خام سے کیا اس سے فائدہ
کب میرے دل سے ہو ہوس دلبراں بروں
یہ اختلاط کیجئے موقوف ناصحا
معقول یعنی دل اسے اے قدرداں نہ دوں
انشاؔ کروں جو پیرویٔ شیخ و برہمن
میں بھی انہوں کی طرح سے جوں گمرہاں رہوں
خلوت سرائے دل میں ہے ہو کر کے معتکف
بیٹھا ہوں کیا غرض کہیں اے جاہلاں ہلوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |