جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا
by شیخ عبداللطیف تپش
318107جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیاشیخ عبداللطیف تپش

جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا
اچھی دیدار کی حسرت تھی کہ مرنے نہ دیا

کیا قیامت ہے ستم گار بھری محفل میں
دل چرا کر تری دزدیدہ نظر نے نہ دیا

مدتوں کش مکش یاس و تمنا میں رہے
غم نے جینے نہ دیا شوق نے مرنے نہ دیا

ناخدا نے مجھے دلدل میں پھنسائے رکھا
ڈوب مرنے نہ دیا پار اترنے نہ دیا

کوئی تو بات ہے جو غیر کے آگے اس نے
شکوہ کیسا کہ مجھے شکر بھی کرنے نہ دیا

خاک آرام کی خواہش ہو وطن سے باہر
جب ہمیں چین تپشؔ اپنے ہی گھر نے نہ دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse