جانے والا اضطراب دل نہیں
Appearance
جانے والا اضطراب دل نہیں
یہ تڑپ تسکین کے قابل نہیں
جان دے دینا تو کچھ مشکل نہیں
جان کا خواہاں مگر اے دل نہیں
تجھ سے خوش چشم اور بھی دیکھے مگر
یہ نگہ یہ پتلیاں یہ تل نہیں
رہتے ہیں بے خود جو تیرے عشق میں
وہ بہت ہشیار ہیں غافل نہیں
جو نہ سسکے وہ ترا کشتہ ہے کب
جو نہ تڑپے وہ ترا بسمل نہیں
ہجر میں دم کا نکلنا ہے محال
آپ آ نکلیں تو کچھ مشکل نہیں
آئیے حسرت بھرے دل میں کبھی
کیا یہ محفل آپ کی محفل نہیں
ہم تو زاہد مرتے ہیں اس خلد پر
جو بہشتوں میں ترے شامل نہیں
وہ تو وہ تصویر بھی اس کی جلالؔ
کہتی ہے تم بات کے قابل نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |