جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک
جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک
کیوں چھیڑتی ہے تو مجھے نا آشنا سرک
جیسے اندھیری رات میں بجلی چمک گئی
اس رخ سے شب گئی جو وہ زلف دوتا سرک
آثار مرگ مجھ میں ہویدا ہوئے مگر
جب پاس سے گئے مرے سب آشنا سرک
کہتا ہے وقت نزع مریض اس کا اس سے یوں
لگنے دے میری آنکھ تو اس دم ذرا سرک
میت سے میری گزرے ہے جس دم وہ بعد قتل
لاشہ کہے ہے خون سے دامن بچا سرک
پوروں پہ ڈورے باندھے ہیں اس پر شعور نے
تا اس کے فندقوں کی نہ جاوے حنا سرک
شب اختلاط سے وہ مرے کیا خفا ہوا
حد سے گئی زیادہ جو انگشت پا سرک
دھڑکے ہے بے طرح سے یہ پہلو میں رات دن
ڈرتا ہوں زخم دل کی نہ جاوے دوا سرک
کرنے دے میرے خون کو آرام خاک میں
اے شور حشر اس کو ابھی مت جگا سرک
یہ کیا غضب ہوا کہ نہ خنجر لگا نہ تیر
پہلو سے آپھی آپ مرا دل گیا سرک
خواب عدم سے میں ابھی چونکا ہوں دور ہو
اے صبح غم نہ اپنا مجھے منہ دکھا سرک
پیچھے مرے پڑا ہے تو کیوں گھر کی راہ لے
رسوا کرے گا کیا مجھے بہر خدا سرک
کیا بے حیا ہے جو نہیں ٹلتا تو مصحفیؔ
سو بار میں نے تجھ کو دوانے کہا سرک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |