جاؤں کیا منہ لے کے میں وہ بد گماں ہو جائے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جاؤں کیا منہ لے کے میں وہ بد گماں ہو جائے گا
by راغب بدایونی
318115جاؤں کیا منہ لے کے میں وہ بد گماں ہو جائے گاراغب بدایونی

جاؤں کیا منہ لے کے میں وہ بد گماں ہو جائے گا
رنگ کے اڑنے سے عشق اس پر عیاں ہو جائے گا

عیش بزم بے خودی جوش فغاں ہو جائے گا
ہم کہاں ہوں گے جو راز غم عیاں ہو جائے گا

دوسرا عالم بنے تو ہو سکے تسکین حسن
اب ہے جتنا یہ تو صرف امتحاں ہو جائے گا

تا اجل پہنچائے گی یہ ناتوانی ہجر میں
ضعف بڑھتے بڑھتے زور ناتواں ہو جائے گا

میری خاموشی کو ظالم جور بے جا سے نہ چھیڑ
ورنہ ضبط دل تری ضد سے فغاں ہو جائے گا

شوق سے غیروں میں جائے میں نہ ہوں گا بد گماں
خوئے بد سے خود وہ اپنا پاسباں ہو جائے گا

دل نشیں ہے عالم ذوق اسیری کا خیال
اب دل صیاد اپنا آشیاں ہو جائے گا

غم سے میرے گھر میں گنجائش نہیں ہے عیش کی
نغمہ خواں بھی آئے گا تو نوحہ خواں ہو جائے گا

موسم باراں میں کیوں ہے دشت کا قصد اے جنوں
آج کل تو دشت اپنا ہی مکاں ہو جائے گا

خوبئ گفتار سے سمجھے گا کون اس کا جواب
حشر سارا محو انداز بیاں ہو جائے گا

کیا یقیں تھا ہم جو پہنچیں گے وہاں اے جوش اشک
وہم اپنا بڑھ کے اس کا پاسباں ہو جائے گا

کہہ سکے گا کچھ بھی اے راغبؔ نہ اس خاموش سے
بے دہن کے سامنے تو بے زباں ہو جائے گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse