Jump to content

تیرگی نام ہے دل والوں کے اٹھ جانے کا

From Wikisource
تیرگی نام ہے دل والوں کے اٹھ جانے کا
by ثاقب لکھنوی
299498تیرگی نام ہے دل والوں کے اٹھ جانے کاثاقب لکھنوی

تیرگی نام ہے دل والوں کے اٹھ جانے کا
جس کو شب کہتے ہیں مقتل ہے وہ پروانے کا

چل بیاباں کی طرف جی نہیں گھبرانے کا
روح مجنوں سے گھر آباد ہے ویرانے کا

دیدۂ دوست تری چشم نمائی کی قسم
میں تو سمجھا تھا کہ در کھل گیا میخانے کا

دم آخر کی ملاقات میں کیا تم سے کہوں
وقت ہی تنگ بہت ہجر کے افسانے کا

دامن شمع پہ دھبا نہ رہا واہ رے عشق
خون اب تک نظر آیا نہیں پروانے کا

تنگ ہے صحن جہاں ساتھ نہ لے بار عمل
راستہ ملتا ہے مشکل سے گزر جانے کا

گل و آہو چمن‌ و دشت میں کہہ جاتے ہیں کچھ
کہیں موقع نہیں اے دل ترے بہلانے کا

روکے جاتے ہیں رہ‌ دوست کے چلنے والے
وہی دشمن ہے جو ہمدرد ہے دیوانے کا

قبر والے موے ممنون زیارت لیکن
نام بدنام کیا آپ نے ویرانے کا

ہجر نے کون سا پیوند لگا رکھا تھا
راستہ مل گیا خنجر کو گزر جانے کا

تو شب غم کو نہ سمجھا ہو تو میں سمجھا دوں
وہی میدان شہادت ترے پروانے کا

قصۂ باغ ہے اور میری مسرت کی امید
ڈھنگ آتا نہیں صیاد کو بہلانے کا

بزم رنگیں میں تری ذکر غم آیا تو سہی
خوش رہے چھیڑنے والا مرے افسانے کا

آشیاں آبلۂ باغ ہے اے سوختہ دل
اک نشاں چھوڑ چلا ہوں ترے جل جانے کا

عبرت عقل ہے وارفتگی اہل مذاق
ہوش والوں میں ہے چرچا ترے دیوانے کا

حسب فرمائش گردش ہیں غریبوں کے مزار
آسماں دوست ہے منظر مرے ویرانے کا

حصۂ بخت کا مانع ہے یہی دور فلک
بڑھ گیا گھوم کے رستہ مرے پیمانے کا

ہو گیا غرق سر شعلۂ شمع محفل
خون اونچا ہوا اتنا کسی پروانے کا

نزع کے وقت جو کہتا ہوں وہ سمجھے کہ نہیں
باب اول تو یہیں ختم ہے افسانے کا

لے پریشانئ دل اب ہے تری عمر دراز
وقت کھنچنے لگا زلفوں کے سنور جانے کا

چوٹ کھانے سے دبی آگ ابھر آئی ہے
رنگ بدلا ہے مرے دل نے صنم خانے کا

داغ دل قبر کی ظلمت میں ہے بے نور ایسا
جیسے دیکھا ہو چراغ آپ نے ویرانے کا

حسن اور عشق کے نیرنگ خدا ہی جانے
شمع جلتی ہے کہ دل جلتا ہے پروانے کا

دیکھ خون سر فرہاد کا رنگیں پتھر
یہ نگینہ ہے بنایا ہوا دیوانے کا

نزع اک عید ہے روتے ہوئے وہ آئے ہیں
اے دل زار یہی وقت ہے مر جانے کا

اہل دل جاگتے سوتے میں سنا کرتے ہیں
وقت کوئی نہیں ثاقبؔ مرے افسانے کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.