تو ہے کس منزل میں تیرا بول کھاں ہے دل کا ٹھار
تو ہے کس منزل میں تیرا بول کھاں ہے دل کا ٹھار
دم ترا آتا ہے کھاں سوں بول کھاں جاتا ہے بھار
دم کے تئیں بوجھا سو کہتے اس کے تئیں انسان ہے
نہیں تو صورت آدمی سیرت میں ہے مثل حمار
میں کہتا سو کون ہے اور تو سمجھتا ہے کسے
کیوں عبث میں تو میں پڑ کر بے عبث ہوتا ہے خوار
راہ بر ہے کون تیرا بول تو کس کا فقیر
فقر کا کیا حاصلا سمجھا مجھے مت ہو گنوار
عاشقاں کے بزم میں اک رنگ ہو اے بو الہوس
مت کہا بلبل نمن چونڈا پھلا کر تاجدار
بحر کے غواص سے مت بحث کر اے خام طبع
نہیں گیا ہے عمر میں اپنے تو دریا کے کنار
کج بحث آتا ہے کرنے جنگ جب عشاق سوں
جیوں کہ طیر ہفت رنگی ہو گیا آ کر شکار
پوچھتا آیا ہوں جو کچھ سوال کا میرے جواب
تھرتھراتا ہے عبث سیماب نمنے بے قرار
تا کہے لگ جواب تجھ پر فقر کا لقمہ حرام
بزم رنداں سوں نکل جا جلد تر ہو کر فرار
شور اور غوغا عبث کرتا ہے کیوں رنگ کر لباس
منہ اٹھا جاتا ہے جیوں بے قید شتر بے مہار
اے علیمؔ اللہ نہ کر کج بحث سوں سوال و جواب
حاصلا طرفین نہیں ہوتا بجز غوغا پکار
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |