Jump to content

تو ہے کس منزل میں تیرا بول کھاں ہے دل کا ٹھار

From Wikisource
تو ہے کس منزل میں تیرا بول کھاں ہے دل کا ٹھار (1920)
by علیم اللہ
304384تو ہے کس منزل میں تیرا بول کھاں ہے دل کا ٹھار1920علیم اللہ

تو ہے کس منزل میں تیرا بول کھاں ہے دل کا ٹھار
دم ترا آتا ہے کھاں سوں بول کھاں جاتا ہے بھار

دم کے تئیں بوجھا سو کہتے اس کے تئیں انسان ہے
نہیں تو صورت آدمی سیرت میں ہے مثل حمار

میں کہتا سو کون ہے اور تو سمجھتا ہے کسے
کیوں عبث میں تو میں پڑ کر بے عبث ہوتا ہے خوار

راہ بر ہے کون تیرا بول تو کس کا فقیر
فقر کا کیا حاصلا سمجھا مجھے مت ہو گنوار

عاشقاں کے بزم میں اک رنگ ہو اے بو الہوس
مت کہا بلبل نمن چونڈا پھلا کر تاجدار

بحر کے غواص سے مت بحث کر اے خام طبع
نہیں گیا ہے عمر میں اپنے تو دریا کے کنار

کج بحث آتا ہے کرنے جنگ جب عشاق سوں
جیوں کہ طیر ہفت رنگی ہو گیا آ کر شکار

پوچھتا آیا ہوں جو کچھ سوال کا میرے جواب
تھرتھراتا ہے عبث سیماب نمنے بے قرار

تا کہے لگ جواب تجھ پر فقر کا لقمہ حرام
بزم رنداں سوں نکل جا جلد تر ہو کر فرار

شور اور غوغا عبث کرتا ہے کیوں رنگ کر لباس
منہ اٹھا جاتا ہے جیوں بے قید شتر بے مہار

اے علیمؔ اللہ نہ کر کج بحث سوں سوال و جواب
حاصلا طرفین نہیں ہوتا بجز غوغا پکار


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.