تو نے لگائی اب کی یہ کیا آگ اے بسنت
Appearance
تو نے لگائی اب کی یہ کیا آگ اے بسنت
جس سے کہ دل کی آگ اٹھے جاگ اے بسنت
کیفیت بہار کے تو اس کو دے خبر
موج نسیم کی طرح اڑ لاگ اے بسنت
ہر شاخ زرد و سرخ و سیہ ہجر یار میں
ڈستے ہیں دل کو آن کے جوں ناگ اے بسنت
منہ دیکھو عاشقوں کے مقابل ہوں رنگ میں
باندھی ہے مجھ سے کس لیے تو لاگ اے بسنت
تجھ میں کہاں یہ بوقلمونی کہاں یہ سنگ
دشت و جبل کو خیر سے اب بھاگ اے بسنت
جوں تار چنگ چھیڑ نہ انشاؔ کو بات میں
تیرا سنا ہوا ہے یہ گھٹراگ اے بسنت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |