Jump to content

تو نہ ہو ہم نفس اگر جینے کا لطف ہی نہیں

From Wikisource
تو نہ ہو ہم نفس اگر جینے کا لطف ہی نہیں
by ہادی مچھلی شہری
319194تو نہ ہو ہم نفس اگر جینے کا لطف ہی نہیںہادی مچھلی شہری

تو نہ ہو ہم نفس اگر جینے کا لطف ہی نہیں
جس میں نہ تو شریک ہو موت ہے زندگی نہیں

عشرت دید ہے یہی اپنا بھی کچھ رہے نہ ہوش
جلوہ بقید تاب دید اصل میں جلوہ ہی نہیں

اول عشق ہی میں کیا دل کا مآل دیکھنا
یہ تو ہے ابتدائے سوز آگ ابھی لگی نہیں

عشق ہے کیف بے خودی اس کو خودی سے کیا غرض
جس کی فضا ہو وصل و ہجر عشق وہ عشق ہی نہیں

یہ بھی نہ ہو خبر کہ سر سجدے میں ہے جھکا ہوا
جس میں ہو بندگی کا ہوش وہ کوئی بندگی نہیں

کس کا سر نیاز تھا پائے ایاز پر جھکا
مانع بندگئ شوق سطوت خسروی نہیں

کر نہ سکون دل کا غم ہادئ مبتلا ذرا
عشق کی بارگاہ میں درد کی کچھ کمی نہیں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.