تو جو پڑا پھرتا ہے آج کہیں کل کہیں
Appearance
تو جو پڑا پھرتا ہے آج کہیں کل کہیں
اے دل خانہ خراب تجھ کو بھی ہے کل کہیں
چاہ بھی کیا چیز ہے سوجھتا پھر کچھ نہیں
گر وہ ہوا اک ذرا آنکھوں سے اوجھل کہیں
دل نے تو حیراں کیا روز کہے ہے یہی
رات کٹی اٹھ میاں صبح ہوئی چل کہیں
جاتا ہوں جب اس کے پاس کہتا ہے وہ اے ہوسؔ
آگے تو میرے نہ آ سامنے سے ٹل کہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |