تو ایک نام ہے مگر صدائے خواب کی طرح
Appearance
تو ایک نام ہے مگر صدائے خواب کی طرح
میں ایک حرف ہوں مگر نشان آب کی طرح
مجھے سمجھ کہ میں ہی اصل راز کائنات ہوں
دھرا ہوں تیرے سامنے کھلی کتاب کی طرح
میں کوئی گیت ہوں مگر صدا کی بندشوں میں ہوں
مرے لہو میں راگ ہے سم عذاب کی طرح
مری پناہ گاہ تھی انہی خلاؤں میں کہیں
میں سطح آب پر رہا حباب آب کی طرح
میں اصغرؔ حزیں کبھی کسی کے دوستوں میں تھا
وہ دن بھی مجھ کو یاد ہیں خیال خواب کی طرح
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |