Jump to content

تم ہر اک رنگ میں اے یار نظر آتے ہو

From Wikisource
تم ہر اک رنگ میں اے یار نظر آتے ہو
by وزیر علی صبا لکھنؤی
303377تم ہر اک رنگ میں اے یار نظر آتے ہووزیر علی صبا لکھنؤی

تم ہر اک رنگ میں اے یار نظر آتے ہو
کہیں گل اور کہیں خار نظر آتے ہو

قابل دید تم اے یار نظر آتے ہو
چشم بد دور طرحدار نظر آتے ہو

صورتیں کرتے ہو اے جان ہزاروں پیدا
تم نئی شکل سے ہر بار نظر آتے ہو

بھول جاتا ہوں میں فرقت کے گلے اور شکوے
شکر کرتا ہوں جب اے یار نظر آتے ہو

آئنہ دیکھنے کو جب نہیں ملتا تم کو
اپنی تم تشنہ دیدار نظر آتے ہو

کہتے ہو ہم نہیں کرتے ہیں کوئی فرمائش
جان تک لینے کو تیار نظر آتے ہو

خوں کسی عاشق کشتہ کا چڑھا ہے سر پر
رنگ لائے ہوئے اے یار نظر آتے ہو

بند ہو جائیں نہ رستے کہیں دیوانوں سے
بال کھولے سر بازار نظر آتے ہو

رہتی ہیں آٹھ پہر آپ کو کنگھی چوٹی
اپنی زلفوں میں گرفتار نظر آتے ہو

خوف سے برج میں جلاد فک چھپتا ہے
تم جو باندھے ہوئے تلوار نظر آتے ہو

سنبلستاں ہیں مری جان سراسر زلفیں
رخ گل رنگ سے گلزار نظر آتے ہو

آبرو حسن کی دولت سے ملی ہے تم کو
رنگ کندن سا ہے زردار نظر آتے ہو

کیا ہے بے یار کھٹکتے ہو مری آنکھوں میں
اے گلو باغ میں تم خار نظر آتے ہو

شان ہے گیسوؤں سے آپ میں سرداری کی
سبزۂ خط سے نمودار نظر آتے ہو

ایسے معشوق زمانے میں کہاں ملتے ہیں
پیار کرنے کے سزاوار نظر آتے ہو

دونو گیسو پئے عاشق ہیں کمندیں دوہری
پیچ میں لاؤ گے عیار نظر آتے ہو

تپ‌ الفت میں صباؔ ہے یہ تمہارا درجہ
دق کے آثار ہیں بیمار نظر آتے ہو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.