تم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا
Appearance
تم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا
قبضے پہ ہاتھ رکھ کے ڈراتے ہو ہم کو کیا
آنکھیں تمہاری جھپکیں ہیں ایدھر کو بیشتر
تم ان اشارتوں سے بلاتے ہو ہم کو کیا
آویں ہماری گور میں گر منکر و نکیر
اتنا کہیں: ابھی سے اٹھاتے ہو ہم کو کیا
لا کر کبھی دیا ہے کوئی پھول پھل ہمیں
تم سیر گلستاں کو جو جاتے ہو ہم کو کیا
کہتے ہو ایک آدھ کی ہے میرے ہاتھوں موت
ہم بھی سمجھتے ہیں یہ سناتے ہو ہم کو کیا
ہم سے تو اب تلک وہی شرم و حجاب ہے
گر ہر کسی کے سامنے آتے ہو ہم کو کیا
کہتے ہو روز ہم سے یہی کل کو آئیو
کیا خو نکالی ہے یہ ستاتے ہو ہم کو کیا
دینا ہے کوئی بوسہ تو دے ڈالیے میاں
کیوں پانو توڑتے ہو پھراتے ہو ہم کو کیا
لے لے کے نام اس کی جفاؤں کا مصحفیؔ
ہم آپ جل رہے ہیں جلاتے ہو ہم کو کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |